تیشہ فکر عابد انور
ہندوستان آزاد ی کے بعد سے ہی فرقہ پرستانہ سوچ رکھنے، امتیازی سلوک ، تعصب برتنے اور انتہا پسندانہ نظریہ رکھنے والوں کے لئے زرخیز زمین ثابت ہوا ہے ۔ جہاں کوئی بھی ناقص بیچ ڈالی جائے فصل لہلا اٹھتی ہے۔ ان کے حمایتی لاکھوں میں نہیں کڑوں میں ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف کوئی کچھ بھی بولے ان کی حمایت میں ان کے ارد گرد ایک ہجوم کھڑا ہوجاتا ہے۔ کل جسے کوئی جانتا تک نہیں تھا محض مسلم دشمنی کی وجہ سے راتوں رات ملک کا ہیرو بن جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ورون گاندھی پیلی بھیت سے اس لئے اپنا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں توڑ ڈالنے کی بات کہی تھی ۔ قربان جائیے سیکولر پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو، نوجوان وزیر اعلی اکھلیش یادو کی حکومت اور پولیس پر کہ ان میں سکت نہیں تھی کہ وہ ورون گاندھی کی آواز کا نمونہ حاصل کرسکیں۔ اترپردیش کی حکومت ورون گاندھی سے اتنی ڈری سہمی ہوئی ہے کہ نہ صرف ان کی آواز کا نمونہ لینے سے قاصر رہی بلکہ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل تک نہیں کی ۔نچلی عدالت نے آواز کا نمونہ پیش نہ کرنے کی وجہ سے ورون گاندھی کو اشتعال انگیز تقریر کے الزام سے بری کردیا ہے۔ اس طرح ایک دو نہیں کہ سیکڑوں کی تعداد میں رہنما ہیں جن کی روزی روٹی مسلم دشمنی سے چلتی ہے۔ ایسے رہنمانہ صرف یہاں کے ہیرو ہیں بلکہ میڈیا اور پولیس میں بھی انہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پولیس والے اگر کسی معاملے میں انہیں عدالت میں پیش کرتے بھی ہیں تو ایک مجرم کی طرح نہیں بلکہ ایک ہیرو کی طرح پیش کرتے ہیں اس کے برعکس اگر کسی مسلمان کو جھوٹے الزام میں حراست میں لیا جاتا ہے اور انہیں عدالت اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ ہندوستان میں اس سے بڑا خونخوار مجرم کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کو عملی طور پر یہاں خلاف قانون نہیں سمجھا جاتا ہے ورنہ پروین توگڑیا، سادھوی رتھمبرا، اوما بھارتی، کلیان سنگھ، بی جے پی اورسنگھ پریوار کے سیکڑوں لیڈر جیل میں ہوتے۔ ہندوستان میں کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب یہاں مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہوں کو نقصان اور مقدس کتاب کی بے حرمتی نہ کی جاتی ہو۔ خصوصاً جب کوئی تہوار کاموقع آتاہے تومسلمانوں کے ساتھ خوشیاں بانٹنے سے زیادہ ان کی توجہ مسلمانوں کی عبادات گاہوں اور مقدس کتابوں کی بے حرمتی کے طریقے ڈھونڈنے پر ہوتی ہے ۔ہولی ، رام نومی اور دیگر تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا خوف ستانے لگتا ہے۔اگر اس موقع پر کوئی سانحہ رونما ہوجائے توجانی و مالی نقصان تو مسلمانوں کا ہوتا ہی ہے ساتھ ہی گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہوتی ہیں۔ مہاراشٹر کے دھولیہ کے فسادات مارے بھی مسلمان گئے تھے اور گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہوئی تھیں۔ قانون نافذکرنے والوں کوکیوں کہ کسی طرح کی کارروائی کا خوف نہیں ہوتا بلکہ پروموشن کا سنہرا موقع ملتا ہے جس طرح بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے خلاف فسادات میں اہم رول ادا کرنے والے پولیس افسران نہ صرف اعلی عہدوں پر پہنچے بلکہ ڈائرکٹر جنرل آف پولیس تک بنائے گئے۔ جہاں حکمرانوں کی یہ سوچ اور رویہ ہو وہاں پولیس والے مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔ گزشتہ دس برسوں سے نریندر مودی کی ذہنیت کیفیت، رویہ، قانون کا احترام ، مودی کو سپریم کورٹ کی پھٹکار، بین الاقوامی سطحً پر مودی کی بے عزتی،کبھی موت کا سوداگر اور تو کبھی ’یمراج‘ (موت کا فرشتہ) جیسے مختلف وحشیانہ القاب سے نوازا گیا لیکن ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس سے انہیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں زبردست فائدہ ہوا اور وہ ہندوستان کے اسٹار سے سپراسٹار بنتے گئے اور گجرات میں مسلمانوں کا ناطقہ بند ہوتا گیا لیکن گجراتی اور ہندوستانی عوام میں مودی کے تئیں کسی طرح کی نفرت تو دور ناراضگی کا عنصر بھی نہیں پایا گیا انہیں ایک طرح سے بھگوان کا درجہ حاصل ہے۔ اب وہ گجرات کی خدمت کرنے کے بعد پورے ملک کی خدمت کرنے کے درپے ہیں۔ مودی کی خدمت کا مطلب کیا ہوتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اسی طرح جب گجرات فسادات کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے انہیں ’راج دھرم‘ نبھانے کی نصیحت کی تھی تو انہوں نے بے ساختہ اور نہایت بے شرمی سے کہا تھا کہ ’میں راج دھرم ہی تو نبھا رہا ہوں‘ یعنی مسلمانوں کا قتل عام انجام دے کر راج دھرم ہی تو نبھایا ہے۔
نریندر مودی کا یہ دعوی کہ انہوں نے گجرات کی بہت خدمت کرلی ہے اور اس کے صلے میں انہیں وزارت اعظمی کے تخت پر بٹھایا جانا چاہئے۔جہاں تک گجرات کی ترقی بات سوال ہے وہ گیارہویں بارہویں صدی سے ہی تجارت کا مرکز رہا ہے اور اس وقت بھی مرکز ہے۔ اگر گجرات میں گدھے کو بھی وزارت اعلی کی کرسی پر بٹھادیاجائے تو گجرات ترقی کرے گا کیوں کہ تمام بنیادی ڈھانچے وہاں پہلے سے موجود ہیں۔ دوسری ریاستوں کی شرح ترقی سے موازانہ کیا جائے گا تو بات سمجھ میں آئے گی کہ گجرات میں کیا ترقی ہورہی ہے ۔ بہار کی طرح گجرات میں بھی میڈیا کے سہارے ترقی ہورہی ہے ۔ وہاں کی ترقی کی بات کی جائے گی تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ دس سال پہلے گجرات کہاں تھااور اس کے مقابلے میں اس وقت کہاں ہے اور دوسری ریاستیں دس سال پہلے کہاں کھڑی تھیں اور اس وقت کہاں کھڑی ہیں۔ یہ وقت اعداد و شمار پیش کرنے کا نہیں ہے اور اس پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے اس لئے صرف گجرات میں قرض کی صورت حال ایک رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔ مودی نے گزشتہ 11 برسوں کے دوران گجرات کو بھاری قرض میں ڈبو دیا ہے۔ مودی نے 2001 میں جب پہلی بار وزیر اعلی کی کرسی سنبھالی تھی، اس وقت سے اب تک تک گجرات پر قرض کا بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔گجرات پر قرض 2001-02 میں 45,301 کروڑ سے کئی گنا بڑھ کر 2013-14 میں 1.76 لاکھ کروڑ تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔31 مارچ 2012 تک گجرات پر کل قرض 1,38,978 کروڑ تھا۔ اگرچہ گجرات کے مقابلے مغربی بنگال اور اترپردیش قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مغربی بنگال پر 1,92,100 کروڑ، تو یوپی پر 1,58,400 کروڑ کا قرض ہے۔لیکن یہاں خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں ریاستیں خود کو \’مثالی ریاست\’ کی طرح پیش نہیں کرتی ہیں۔مودی اگر دہلی سفر کرتے ہیں، تو ہر گجراتی کے سر پر وہ قرض کا بھاری بوجھ چھوڑ جائیں گے۔ گجرات کی مکمل آبادی اگر 6کروڑ مان لی جائے، تو ہر شخص کے سر پر تقریباً 23،163 ہزار کا قرض ہوگا۔گجرات حکومت قرض پر 34.50 کروڑ یومیہ کے حساب سے بھاری بھرکم سود چکا رہی ہے۔ گجرات حکومت کے بجٹ کے تخمینوں کے مطابق اس حساب سے 2015-16 تک ریاست پر قرض بڑھ کر 2,07,695 کروڑ ہو جائے گا۔خاص بات یہ ہے کہ یہ اس وقت ہے جب گجرات میں پیٹرول پر زیادہ ویٹ ہے اور گجرات ان چند گنے چنے ان ریاستوں میں سے ہے جو کھاد پر بھی ویٹ وصولتا ہے۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ مودی کتنے عوامی اور فلاحی وزیر اعلی ہیں۔ صنعت کاروں کو ساری سہولتیں مہیا کردینے سے ریاست کی ترقی نہیں ہوتی بلکہ عوام کی ترقی سے ریاست کی ترقی ہوتی ہے۔ جہاں پیٹرول اور یہاں تک کھاد پر ویٹ ہو وہ ریاست فلاحی ریاست کیسے ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ لوک آیکت (محتسب) کی تقرری پر گزشتہ برسوں نریندر مودی کا جو رویہ سامنے آیا وہ آمریت والا ہے۔ نئے قانون کے تحت گورنر سے زیادہ طاقت وزیر اعلی کو حاصل ہے۔گجرات اسمبلی نے اس نئے احتسابی قانون کو منظوری دی ہے جس کے تحت اگر کوئی شخص اس کے تحت ہونے والی تفتیش کی خبر عام کرے گا تو اسے دو برس قید کی سزا ہوگی۔ریاست میں منظوری کئے جانے والے احتسابی کمیشن (لوک آیکت) کی تقتیش کے دوران اس سے متعلق کسی قسم کی معلومات میڈیا کو نہیں دی جائیں گی اور اگر کسی صحافی نے اس سے متعلق کوئی خبر شائع کی تو اسے دو برس تک کی سزا ہو سکتی ہے۔اس کمیٹی کے ذریعے منتخب کیے گئے افسران کے ناموں کو منظوری ریاستی گورنر دیں گے۔جو شخص لوک آیکت میں شکایت درج کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کے لیے دو ہزار روپے فیس ادا کرنی ہوگی۔ اگر کسی شخص نے غلط شکایت کی تو اسے چھ ماہ قید اور پچیس ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔اس صورت میں کون شکایت کرنے کی ہمت کرے گا۔
گجرات کی اقتصادی ترقی ، خوش حالی اور بہتر حکمرانی کا ملک بھر میں ڈنکاپیٹا جارہاہے۔ لیکن ۔زندگی کے دو اہم پہلو جس کاراست تعلق انسانی زندگی اور انسانی ترقی سے ہے،تعلیم اور صحت کے میدان جب گجرات کا باریک بینی سے جائزہ لیاگیا تو انتہائی مایوس کن کاردگی سامنے آئی ہے۔حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق اسکولی تعلیم ترک کرنے والوں کی گجرات میں شرح 58 فیصدہے جبکہ قومی اوسط 49 فیصد ہے۔گجرات میں دلتوں کی فیصد 65ہیے جب قبائلی لئے 78 فیصد ہے۔ جہاں تک طلبہ کے حساب سے اساتذہ کی شرح کا تعلق ہے ۔ گجرات میں 52طلبا پر ایک استاذ ہے جبکہ اس کی قومی شر ح 34 ہے۔ تکلیف دوہ صورت حال یہ ہے کہ لڑکیوں کا داخلہ گزشتہ دس برسوں میں 24فیصد سے کم ہوگیا ہے جب کہ لڑکیوں میں تھوڑا بہتر ہوکر 11فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔گجرات میں دلتوں طلبہ داخلہ 27فیصد سے کم ہوگیا ہے یہ قومی اوسط سے صرف ایک فیصد زیادہ ہے۔ جب کہ قبائیلوں کے داخلہ میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اعلی تعلیم کے معاملے میں گجرات قومی اوسط سے پچھڑا ہوا ہے۔ اعلی تعلیم میں داخلے کی شرح گجرات میں 17.6 ہے جب کہ قومی اوسط 20.4ہے۔ کچھ ریاستوں سے گجرات بہت ہی پیچھے ہے۔ مثلاً تمل ناڈو میں 38.2ہے اور مہاراشٹر میں 27.4ہے۔
گجرات میں صحت خدمات کی صورت حال بھی دگرگوں ہے۔ پرائمری ہیلتھ کےئر میں گجرات میں ڈاکٹروں کی34 فیصدکمی ہے جبکہ ، بچہ اور خواتین ماہر امرا ض ڈاکٹر کی کمی حیرت انگیز طور پر 94 ہے۔ بنیادی سہولت کا فقدان ہے۔ 21فیصد ذیلی مراکز اور 19 فیصد پرائمری ہیلتھ سنٹر اور گیارہ فیصد کمیونٹی ہیلتھ سینٹرموجود نہیں ہیں۔ قبائلی علاقوں میں 70 فیصد ایکسرے ٹیکنیشین اور 63فارماسسٹ تعینات نہیں ہے۔ جبکہ سو فیصد ماہرین ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ صحت کی بدانتظامی کا نتیجہ سامنے ہے ۔ گجرات میں بچہ اموات جہاں 2012میں 38 تھا وہیں مہاراشٹر میں 25اور تمل ناڈو میں 21بچے فی ہزار کی شرح اموات ہے۔ دیہی علاقوں میں بچوں کی شرح اموات 45 فیصد تک ہے اور مغربی گجرات کے اضلاع میں یہ شرح 55تک پہنچ گئی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شرح اموات37ہے جب کہ قومی اوسط 34 ہے۔ یہ صرف صحت خدمات کی ہی کمی نہیں ہے بلکہ لڑکیوں کے ساتھ کئے جانے والے امتیاز کا منہ بولتا ثبوت ہے۔گجرات کی ترقی کی مثالیں دینے والے بی جے پی کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی کی اس ریاست میں ہر تیسرا بچہ انڈر ویٹ ہے ۔ گجرات میں کیگ نے یہ انکشاف کیا ہے ۔کیگ نے ریاست کی مربوط بہبود اطفال منصوبہ (آئی سی ڈی ایس کے ) پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں ہر تیسرے بچے کا وزن اوسط سے کم ہے ۔ گجرات کی کارکردگی تعلیم اور صحت کے شعبے میں انتہائی خراب کارکردگی رہی ہے۔ کیوں کہ ان چیزوں پر بہت زیادہ خرچ نہیں کیا جارہا ہے۔2001سے 2002کے دوران اپنے مجموعی مصاف میں سے 13.2 ان شعبوں پر خرچ کیا ہے۔ جب کہ قومی اوسط 14.8ہے۔ اسی طرح گجرات حکومت صحت کے تعلق سے کاانتہائی کنجوسی کا رہا ہے۔ اس نے اپنے خرچ میں صرف تین فیصد خرچ کیا ہے ۔ تملناڈو میں چار فیصد، مہاراشٹر میں3.5خرچ کیا گیا ہے۔ جب کہ جھارکھنڈ 4.8 فیصد اور راجستھان 4.5 فیصد اس میں آگے ہے۔
گجرات کے بارے میں کیگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے ، \’ اسپلیمنٹس پروگرام کے لئے 223.14 لاکھ بچے کو غذا پہنچانا تھا لیکن ان میں سے 63.37 لاکھ بچے چھوٹ گئے ۔یہ رپورٹ جمعرات کو گجرات اسمبلی میں پیش کی گئی تھی ۔اس میں کیگ نے کہا ، سالانہ طور پر 300 غذائیت دن کے ٹارگیٹ کے پس منظر میں بچوں کوا سپلیمنٹس مہیا کرانے کے دنوں کی کمی 96 تک پہنچ گئی ۔لڑکیوں کی پرورش کی پروگرام میں 27 سے 48 فیصد تک کمی دیکھی گئی ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 1.87 کروڑ کی آبادی آئی سی ڈی ایس کے فوائد سے محروم رہ گئی ۔کیگ نے کہا ، 75 ، 480 آنگن واڑی مراکز کی ضرورت تھی ، لیکن صرف 52137 مراکز کی منظوری دی گئی اور ان میں سے 50225 مرکز چل رہے ہیں . ایسے میں 1.87 کروڑ آبادی آئی سی ڈی ایس کے فوائد سے محروم رہ گئی ۔کیگ کی رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت نے ریاست کو نومبر ، 2008 میں ہدایت دی گئی تھی کہ وہ نظر ثانی آبادی کے معیار کی بنیاد پر اضافی منصوبوں کے سلسلے میں وہ تجویز سونپے ، لیکن گجرات نے کوئی تجویز نہیں پیش کی ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے نو سے 40 فیصد آنگن واڑی مراکز پر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔کیگ نے کہا کہ نابارڈ نے 3333 آنگن واڑی مراکز کی تعمیر کی منظوری دی تھی ، لیکن صرف 1979 مرکز بنے ۔پورٹ میں کہا گیا ہے کہ09 ۔2008تک مرکزی حکومت نے آئی سی ڈی ایس کے لئے مکمل پیسہ دیا تھاجب کہ ریاست کو 10 فیصد تعاون حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رگھورام راجن کمیٹی نے گجرات کو کم ترقی یافتہ ریاست قرار دیا ہے۔اس کمیٹی نے غریب ریاستوں کو اضافی مدد دینے کے لئے انہیں خصوصی درجہ دینے والے معیار کو ختم کرنے اور ملک کی28 ریاستوں کو سب سے کم ترقی یافتہ ، کم ترقی یافتہ اور نسبتا تیار ریاستوں کے زمرے میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق گوا اور کیرالا نسبتا تیار اور اوڈیشا اور بہار سب سے کم ترقی یافتہ ریاست ہیں ۔گجرات کم ترقی یافتہ ریاستوں کے زمرے میں شامل ہے ۔اس میں علاحدہ سے مسلمانوں کے تعلق اعداد و شمار کا ہم ذکر نہیں کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی حالت، صحت، تعلیم ، تجارت، معاشیات میں بہت دگرگوں ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے وہ ترقی کیلئے قابل اعتنا نہیں سمجھے جاتے۔
ہندوستان میں بار بار جھوٹ بولنے کاکیا اثر ہوتا ہے یہاں کامیڈیا خوب جانتا ہے ۔ مودی کی جھوٹ میں یہاں پورا میڈیا شامل ہے ۔ وہ مودی کے کسی بھی منفی پہلو کو دکھانے سے گریز کرتا ہے اس لئے صرف مودی کو غلط قرار دینا صحیح نہیں ہوگا بلکہ مودی کے ساتھ میڈیا کے خلاف بھی کارروائی ضروری ہے۔ لیکن لکھ ٹکے کاسوال یہی ہے کہ کارروائی کرے گا ۔ کارروائی کرنے والوں کاقارورہ انہی طبقوں سے ملتا ہے بظاہر وہ کوئی بھی ہو اور کسی عہدہ پر ہو۔کہا جاتا ہے کہ پورے ملک میں مودی لہر چل رہی ہے اور لوگوں کی زبان پر گجرات کی ترقی کا ذکر ہے۔یہ مندرجہ بالا اعداد و شمار سے ہندوستانی ووٹروں کی آنکھ کھلے گی؟نریندر مودی اگر وزیر اعظم بن گئے تو مسلمانوں کا جو حشر ہوگا وہ ہوگا ہی لیکن ہندوستان کا امن پسند اور سیکولر طبقہ کا ناطقہ بھی بند ہوجائے گا۔ میڈیا، عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ مودی کی دھن پر رقص کریں گے۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا کوئی بھی بٹن دبایا جائے گا ووٹ مودی کے کھاتے میں جائے گا۔ گجرات میں کتنی جمہوریت ، آزادی اظہار اورانسانی حقوق کا کا احترام کیا جاتا ہے وہ گجرات میں جاکر معلوم ہوتا ہے۔ جہاں چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں بند ہورہی ہوں اور کسان خودکشی کر رہے ہوں وہاں کی ترقی کا صرف تصور کیا جاسکتا ہے۔ابھی وقت آپ کے پاس ہے کل نہیں رہے گا۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com