معصوم مرادآبادی
آج نہ تو شاہی امام سیدعبداللہ بخاری کا یوم پیدائش ہے اور نہ ہی یوم وفات۔ اس لیے آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میں نے ان پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیوں کیا اور انھیں یادکرنے کی وجہ کیا ہے؟ میری نظر میں شاہی امام سیدعبداللہ بخاری اس ملت کے محسن تھے اور جو قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کردیتی ہیں ان پر اللہ اپنے محسن اتارنا بندکردیتا ہے۔
آج اس مضمون کا محرک یہی خیال پریشاں ہے۔ یوں بھی جب سے ملت اسلامیہ ہند پر برا وقت پڑا ہے مجھے نہ جانے کیوں بار بار ان کی یادآرہی ہے۔ان کا نہ توسیاست سے کوئی ناطہ تھا اور نہ ہی وہ اس کے داؤپیچ جانتے تھے۔دراصل حالات نے انھیں مجبور کردیا تھا کہ وہ سیاست دانوں کے ساتھ اسٹیج شیئر کریں۔ حالانکہ ان کا یہ تجربہ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوا، کیونکہ سیاست دانوں نے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو وہ اکثر ایسے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں جو برے وقت میں ان کے کام آتے ہیں۔
شاہی امام سید عبداللہ بخاری مرحوم دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کے بارہویں امام تھے۔دہلی کی جامع مسجد تعمیر کرنے کے بعد ان کے اجداد کو شاہجہاں نے بخارا سے خاص طورپر مسجد کی امامت کے لیے مدعو کیاتھا اور تب سے یہی خاندان اس منصب پر فائض ہے۔
سیدعبداللہ بخاری کی پیدائش 1922میں راجستھان میں ہوئی تھی۔ اس اعتبار سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان کی پیدائش کی صدی ہے۔ وہ اگر زندہ ہوتے تو ایک صدی کی عمر کو پہنچتے۔ انھیں خاندانی روایت کے مطابق1946 میں جامع مسجد کا نائب امام مقررکیا گیا اور8 جولائی 1973 کو انھوں نے اپنے والدسید حمیدبخاری کی جگہ شاہی امامت کا منصب جلیلہ منصب حاصل کیا۔ان کا انتقال 8 جولائی 2009 کو 87 سال کی عمر میں ہوا۔
میری خوش قسمتی یہ ہے کہ مجھے انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ درجنوں بار ان کے انٹریوز لئے اور ان سے سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔بارہا ان کے دسترخوان پرلذیذ مغلئی کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔لیکن جس ادا نے مجھے ان کا گرویدہ بنایا تھا،وہ ان کی بے پناہ جرات اور بے باکی تھی۔ وہ خدا کی بادشاہت پر یقین کامل رکھتے تھے اور ہر جمعہ کو نماز کے بعدلاکھوں فرزندان توحید کے درمیان اس یقین کو ان الفاظ میں دوہراتے تھے۔”ہم سب ایک ہی خدا کی بادشاہی پر یقین رکھتے ہیں اوراسی کے آگے اپنا سرنیاز جھکاتے ہیں“ واقعہ یہ ہے کہ جب وہ ان الفاظ کو اپنی گرجدار آواز میں منبر سے دوہراتے تھے تو نمازیوں کے بدن میں ایک عجیب قسم کی حرارت پیدا ہوتی تھی اور خدا پر یقین مضبوط ہوتا چلاجاتا تھا۔
آج ہندوستان میں مسلمانوں کو جن مسائل و مصائب کا سامنا ہے، ان میں مجھے دوردور تک شاہی امام جیسی جرات اور ہمت والا قائد نظر نہیں آتا۔ وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے مگر ان کا شخصی جاہ وجلال اور وجاہت ایسی تھی کہ ان سے ہرکوئی مرعوب تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھیونڈی کے فسادزدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے لیے وہ بمبئی پہنچے تو سانتا کروزہوائی اڈے پر جہاز کے تمام ہی مسافر ان کی ایک جھلک پانے کے لیے قطارمیں کھڑے ہوئے تھے۔گول چہرہ، چوڑی پیشانی، سرپرخاص قسم کی چوکور ٹوپی،آنکھوں پر کالا چشمہ ان کی خاص پہچان تھی۔وہ ہمیشہ عربی توپ پہنتے تھے کہ اس میں ان کا بھاری بھرکم وجود سماجاتا تھا۔ آپ ان کے جذباتی طرز عمل اور فکر پرتنقید کرسکتے ہیں، لیکن ان کے اخلاص اور نیک نیتی پر انگلی نہیں اٹھاسکتے۔ انھوں نے پوری زندگی ملت کے نام وقف کی تھی اور وہ حکمرانوں سے برابری کی سطح پر گفتگو کرتے تھے۔
انھوں نے پوری زندگی عام انسانوں کی طرح گزاری۔وہ وی آئی پی کلچر کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی مخصوص لوگوں کی محفلوں میں اٹھنا بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ عام لوگوں کے درمیان بالکل عام انسانوں کی طرح رہتے تھے۔ ان کی شخصیت کا اصل ظہور ایمرجنسی کا دوران ہوا۔ سرکاری مظالم اورنس بندی کے خلاف وہ اپوزیشن کی ایک مضبوط آواز بن کر ابھرے۔اس دوران ایک مرتبہ جب آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کررہی تھیں تو ان کے مدمقابل شاہی امام جامع مسجد کے منبر سے دوبدو ان کی باتوں کو جھٹلارہے تھے۔اس دوران انتظامیہ نے جب مسجد کی بجلی کاٹ دی وہ تب بھی لاؤڈاسپیکر سے یہ کام کرتے رہے۔اندرا گاندھی کو اقتدار سے بے دخل کرنے والوں میں وہ سرفہرست تھے، کیونکہ انھوں نے جنتا پارٹی کی تحریک کے دوران اپوزیشن لیڈروں کے شانہ بشانہ انتخابی مہم چلائی تھی۔
یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ1977میں جنتا پارٹی سرکار بننے کے بعد جب وزیراعظم مرارجی ڈیسائی نے انھیں نائب صدر جمہوریہ کا عہدہ پیش کیاتو انھوں نے اسے حقارت سے ٹھکرادیا تھا۔ اس کے بعد 1989میں وی پی سنگھ کی قیادت والی جنتادل سرکار بنوانے میں بھی انھوں نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آنجہانی وی پی سنگھ وزیراعظم کا حلف اٹھاکر سب سے پہلے شاہی امام سے آشیرواد لینے جامع مسجد کے اسی حجرے میں آئے تھے، جو ہرخاص وعام کے لیے کھلا ہوا تھا۔
ایمرجنسی کے بعدشاہی امام نے جے پرکاش نرائن، بابو جگجیون رام، چندرشیکھر، راج نارائن اور چودھری چرن سنگھ کے ساتھ درجنوں انتخابی جلسوں کو خطاب کیا اور ملک کے اندرسیاسی بیداری پیدا کی۔مجھے یاد ہے کہ جنتا پارٹی حکومت کا پہلا عوامی جلسہ رام لیلا گراؤنڈ میں منعقد ہوا تو شاہی امام اسٹیج پر پہلی صف میں بیٹھے تھے اور انھوں نے اس حکومت کو اپنا’عصا ئے شاہی‘دکھاتے ہوئے یہ باور کرادیا تھا کہ اگر حکومت اپنی راہ سے بھٹکی تو وہ اسے زمیں دوز کردیں گے۔ میں اس عوامی جلسے کا عینی گواہ ہوں۔
کہنے کو وہ شاہی امام تھے اور اسی خاندان کے چشم وچراغ بھی تھے جسے شاہجہاں نے جامع مسجد کی تعمیر کے بعد امامت کے لیے بخارہ سے طلب کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے تو محل میں بھی رہ سکتے تھے۔لیکن وہ ہمیشہ اپنے چھوٹے سے حجرے میں بیٹھ کر ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے۔
آج ملک میں مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے ان میں مجھے ان جیسا کوئی بے لوث مسلم قائد نظر نہیں آتاجو حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ آج کی مسلم قیادت مصلحت کے حصاروں میں قید ہے اور اسے ملک وملت سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کی فکر لاحق ہے۔ شاہی امام کی خوبی یہ تھی کہ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا۔ نہ تو انھیں دولت کی چاہ تھی اور نہ ہی اقتدار سے انھیں کوئی سروکار تھا۔ان کا پسندیدہ اخبار روزنامہ ’پرتاپ‘ تھا جو اس دور میں اپنے تیکھے اداریوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ یہ ادارئیے اکثر مسلمانوں پر تنقید سے لبریز ہوتے تھے۔ میں نے ’پرتاپ‘ کے علاوہ کوئی دوسرا اخبار ان کے ہاں نہیں دیکھا۔حالانکہ اس دور میں ’دعوت‘، الجمعیۃ‘اور ’قومی آواز‘ جیسے اخبار بھی شائع ہوتے تھے، لیکن وہ ’پرتاپ‘ ہی شوق سے پڑھتے تھے۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ مسلمانوں نے اپنے مخلص قائدین کی قدر نہیں کی اور انھیں موت کے بعد فراموش کردیا۔ میں ان مخلص قائدین میں ڈاکٹرعبدالجلیل فریدی، ابراہیم سلیمان سیٹھ، غلام محمود بنات والا، سلطان صلاح الدین اویسی اور سید شہاب الدین کو بھی شمارکرتا ہوں، جو آج ہماری یادداشت سے محو ہوچکے ہیں۔ خدا ان کی قبروں کو نور سے بھردے۔آمین