فلسطینی حکام نے اپنی تحقیقات میں ثابت کیا ہے کہ 11 مئی کو الجزیرہ سے منسلک خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ جینن شہر میں اسرائیلی فوجی کی گولی سے جاں بحق ہوئیں۔
شائع رپورٹ کے مطابق فلسطینی اٹارنی جنرل اکرم الخطیب نے اپنی رپورٹ حکام کو جمع کرائی ہے جس کے مطابق خاتون صحافی کو قتل کرنے والی گولی 5.56 ملی میٹر قطر کی ہے جس میں اسٹیل کا ایک پرزہ بھی تھا جو نیٹو فورسز استعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی حکام یہ گولی اسرائیل کے حوالے نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل اکرم الخطیب نے ٹیلی ویژن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک اپنی خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کا مقدمہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کے استغاثہ کے حوالے کرے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق الجزیرہ کی قانونی ٹیم بین الاقوامی قانونی ماہرین کے ساتھ مل کر ابو عاقلہ کے قتل پر ایک فائل تیار کرے گی تاکہ آئی سی سی سے رجوع کیا جا سکے۔
فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام الہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اکرم الخطیب نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ جب خاتون صحافی چھاپہ مار کارروائی کے مقام سے نکلنے کی کوشش کررہی تھیں تو اسرائیلی قابض فوج کے ایک اہلکار نے گولی چلائی جو سیدھی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے سر میں لگی تھی۔
خیال رہے کہ صحافی شیریں ابو عاقلہ نے ہیلمٹ اور جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس پر واضح طور پر ’پریس‘ لکھا ہوا مگر اس کے باوجود بھی ان کو بلٹ پروف جیکٹ پھاڑنے والی گولی کا نشانہ بنایا گیا۔
اٹارنی جنرل اکرم الخطیب فلسطینی حکام کی جانب سے 11 مئی کو مغربی کنارے جینن شہر میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کی دوران صحافتی فرائض ادا کرتے وقت فوج کی گولی کا نشانہ بننے والی صحافی کی قتل کی تحقیقات کے بارے میں بتا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج کے گولی چلانے کا مقصد ہی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو قتل کرنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تحقیقات گواہوں کے انٹرویوز، جائے وقوع کا معائنہ کرنے اور فارنزیک میڈیکل رپورٹ پر مبنی ہے۔
جائے وقوع پر موجود عینی شاہدین اور ساتھیوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فورسز نے قتل کیا تھا، الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے کہا کہ شیریں کو جارحانہ انداز سے قتل کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے اسرائیلی فوج کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے ہوئے کہ خاتون صحافی کو فلسطینی فوج کی گولی لگی ہوگی، کہا کہ ان کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا ہے کہ جائے وقوع پر کوئی بھی مسلح فلسطینی موجود نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج شیریں ابو عاقلہ اور دیگر صحافیوں کو واضح طور پر دیکھ سکتی تھی کیوں کہ انہوں نے ’پریس‘ اراکین کے جیکٹس پہنے ہوئے تھے۔
اٹارنی جنرل کے مطابق شیریں ابو عاقلہ کی موت کے بعد نابلس میں کیے گئے پوسٹ مارٹم اور فرانزک معائنے سے پتہ چلتا ہے کہ خاتون صحافی کو پیچھے سے گولی ماری گئی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ اسرائیلی فورسز صحافیوں پر گولیاں چلا رہی تھی۔
اسرائیل کی جانب سے اس قتل پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، اسرائیل کے فوجی استغاثہ نے فوج سے ٹھوس تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسرائیلی میڈیا نے گزشتہ روز اس بات کی تصدیق کی کہ فوج کا ایسی تحقیقات شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔