اُردو کو بے جان ‘ بے زبان اور صرف مُسلمانوں کی پہچان سمجھنے والوں کو ٹھکرانے کا وقت آگیا ہے- امین بنجارا
جموں-۶۲ مارچ ۴۰۱۲ئ ”اُردو زبان بِلا شبہ ہندوستان کی آن بان ‘ شان اور بین الاقوامی سطح پر اِس مُلک کی پہچان ہے اور گنگا جمنی تہذیب کی پروردہ یہ زبان اِس مُلک کی وحدت کی نمائندہ ترجمان بھی ہے لیکن ہندوستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے ہمیشہ ہی اِس زبان کا استحصال کیا ہے۔اب وقت آگیا ہے جب پارلیمانی انتخابات ۴ ۱۰۲ئ میں اُردو کو ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کر نا ہو گا۔ اُردو کے نام اور حوالے سے ِاقتدار حاصل کرکے گونگے بہرے بننے والوں اور اُردو کو بے جان اوربے زبان سمجھنے والوں کو ٹھکرانے کا وقت آگیا ہے ۔“ اِن خیالات کا اِظہار اُردو کے معروف افسانہ نگار‘محقق ‘ناقد ‘آزاد فاو¿نڈیشن کے صدر اورجموں کشمیر اُردو گِلڈ کے چیئرمین امین بنجارا نے آج اُردو گِلڈ کی ایک خصوصی نشست میں کیا جو موجودہ پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں اُردو کے رول پر غور و خوض کرنے کے لیے بُلائی گئی تھی۔
اِس موقع طالب علموں اور نئی نسل کے اُردو عاشقوں سے مخاطب ہوتے ہوئے امین بنجارا نے کہا کہ ۷۴۹۱ئ کے بعد سے اب تک مُلک میں کئی بار انتخابات ہوئے اور کئی حکومتوں نے اپنے ادوار مکمل کئے لیکن اُردو کی فلاح و بہبود کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے کوئی ٹھوس اقدامات عمل میں نہیں لائے بلکہ ہر بار اُردو زبان اور اِس زبان کے ادبا و شعرا کو جھوٹے وعدوں سے بہلایا پھُسلایا گیااور اُردو کی طرح اُردو والے بھی اِس قدر شریف اور بھولے بھالے ہیں کہ ہر بار جھوٹے وعدوں پر اعتبار کئے بیٹھے رہے ۔ امین بنجارانے کہا اِس بار اپنی شرافت اور اِنکساری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اُردو والوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اُردو زبان کے فروغ اوراِس کی بقا کے لیے ایک جامع منشور تیار کر نا ہو گااور اِس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اِس دفعہ مرکز میں اور پھر ہندوستان کی ریاستوں میں ایسی حکومتیں قائم ہوں جو ظاہری طور پر نہیں بلکہ باطنی طور پر اُردو دوست ہوں اور جن میں اُردو زبان کے لےے کچھ کر گزرنے والے نمائندوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہو۔
ہندوستان کی جملہ ریاستوں میں بسنے والے اُردو معاشروں سے اپیل کرتے ہوئے امین بنجارا نے کہا کہ اُردو والے اپنے سیاسی الحاقات و نظریات سے بالاتر ہو کر موجودہ اِنتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور مقررہ تواریخ پر اپنا ووٹ ضرور ڈالیں لیکن ووٹ دینے سے قبل یہ ضرور دیکھیں کہ اُن کی ریاست اور اُن کے حلقہ¿ انتخاب میں شریک سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور اُردو زبان میں شائع ہوئے ہیں یا نہیں۔ منشور میں اُردو زبان کی فلاح و بہبود کے لیے کون سی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ کیا اُن سیاسی جماعتوں یا اُن کے اُمیدواروں نے گزشتہ انتخابات میں بھی اُردو کی ترقی کے لیے وعدے کئے تھے اور اگر کئے تھے تو کتنے وعدے پورے ہوئے۔ کیا اُن ریاستوں میں اُردو کلب‘ اُردو میڈیم سکول ‘اُردو یونیورسٹیاں‘اُردو ڈائریکٹورےٹ اور اُردو ڈویلپمنٹ بورڈ قائم کئے گئے ہیں۔ کیا بچوں کو اُردو پڑھانے کے لیے سکولوں میں اُردو مدرسین فراہم کئے گئے ہیں۔ کیا اُردو مدرسین‘ اُردو مترجمین‘ اُردو افسروں کی خاطر خواہ تقرریاں عمل میں لائی گئیں اور اِس سلسلے میں کوئی خصوصی مہم عمل میں لائی گئی۔ بینکنگ نظام‘ ریلوے‘ریڈیو‘ٹیلی ویژن‘پولیس‘مال اور دیگر جملہ سرکاری دفاتر میں اُردو زبان کا چلن ہے یا نہیں اور اُن دفاتر میں اُردو جاننے والے ملازمین کی شرح فی صد کیا ہے۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اُردو خبریں اور اُردو پروگراموں کو کتنے وقت کے لیے نشر کیا جاتا ہے۔ اُردو کو روزی روٹی سے جوڑنے کے لیے اب تک کون کون سے اِقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔یہ دیکھنا بھی لازم ہے کہ اُن ریاستوں سے اُردو کے کتنے اخبارات شائع ہو رہے ہیں اور ان اخبارات کے تئےں محکمہ اطلاعات کا رویہ کیسا ہے ۔ اُردو گِلڈ کے چیئر مین نے مزید کہا کہ اِس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ اُن ریاستوں میں اُردو زبان کو کون سا درجہ حاصل ہے ۔کیا اُردو وہاں کی دُوسری سرکاری زبان ہے یا رابطے کی زبان ہے اور اس کے ترقی کے لیے کون کون سے کام کئے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُردو جموں و کشمیر کے علاوہ کسی بھی ریاست کی سرکاری زبان نہیں ہے لیکن اِسے بد نصیبی ہی سے تعبیر کیا جائے گا کہ یہاں سرکاری سطح پر اُردو کی پذیرائی برائے نام ہے۔ اُنہوں نے اُردو والوں سے پُر زور گزارش کی کہ یہ مناسب وقت ہے جب پورے مُلک میں اُردو کے حق میں ایک زبردست اور موثر تحریک چلاکر اِس مشترکہ تہذیب کے روشن مستقبل کے لیے کچھ کیا جا سکتا ہے۔
جاری کردہ:
جسونت سنگھ منہاس
جنرل سکریٹری ‘جموں کشمیر اُردو گِلڈ