سرکاری نشریاتی ادارے این ایچ کے نے رپورٹ کیا ہے کہ جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو آبے قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئے۔
اس سے قبل مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ سابق جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے پر نارا کے علاقے میں انتخابی مہم کے دوران قانلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں گولی لگنے کے بعد ان کی حالت تشویشناک تھی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی خبر کے مطابق قومی نشریاتی ادارے ‘این ایچ کے’ نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 40 سالہ شخص کو سابق وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس کے قبضے سے اسلحہ برآمد کرلیا گیا ہے۔
این ایچ کے اور کیوڈو نیوز ایجنسی کی رپورٹس کے مطابق سابق وزیر اعظم آئندہ اتوار کو ہونے والے ایوان بالا کے انتخابات سے قبل تقریب میں خطاب کر رہے تھے کہ اسی دوران مبینہ طور پر گولیوں کی آواز سنی گئی۔
جائے وقوع پر موجود خاتون نے این ایچ کے کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم تقریر کر رہے تھے اور اسی دوران عقب سے ایک شخص آیا، پہلے اس نے فائر کیا جس کی آواز ایک کھلونے کی مانند تھی لیکن وہ گرے نہیں اور پھر ایک زوردار دھماکا ہوا۔
خاتون نے مزید بتایا کہ ان پر کیا گیا دوسرا فائر واضح دکھائی دیا، چنگاری اور دھواں بھی دیکھا جاسکتا تھا، دوسری گولی کے بعد لوگوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور ان کا کارڈیک مساج شروع کردیا۔
شنزو آبے کی حکمراں جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے ذرائع نے جیجی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ حملے کے بعد 67 سالہ شنزو آبے گر گئے تھے اور ان کی گردن سے خون بہہ رہا تھا۔
ایل ڈی پی اور مقامی پولیس دونوں فوری طور پر ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کر سکے۔
این ایچ کے اور کیوڈو دونوں خبر رساں اداروں نے رپورٹ کیا کہ شنزو آبے کو ہسپتال لے جایا گیا کیونکہ ان کی حالت بہت تشویشناک دکھائی دیتی تھی اور ان کی ہلاکت کے خدشات جنم لے رہے تھے۔
کئی میڈیا آؤٹ لیٹس نے رپورٹ کیا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہیں پیچھے سے گولی ماری گئی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے تناظر میں ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے اور توقع ہے کہ اس حوالے سے اعلیٰ حکومتی ترجمان جلد ہی بات کریں گے۔
جاپان کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے شنزو آبے نے 2006 میں ایک سال حکومت کی اور پھر 2012 سے 2020 تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے اور آٹھ سال تک حکومت کے بعد وہ آنتوں کی بیماری کے باعث استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔
جاپان میں اسلحہ پر قابو پانے کے حوالے سے دنیا کے سخت ترین قوانین لاگو ہیں اور ایک کروڑ 5 لاکھ افراد کے ملک میں آتشی اسلحے سے ہونے والی سالانہ اموات کی تعداد بہت کم ہے۔
بندوق کا لائسنس حاصل کرنا جاپانی شہریوں کے لیے بھی ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے، اس کے حصول کے لیے شہریوں کو پہلے شوٹنگ ایسوسی ایشن سے سفارش حاصل کرنی ہوتی ہے اور پھر سخت پولیس چیکنگ سے گزرنا ہوتا ہے۔
‘قابل نفرت حملہ’
شنزوابے کی موت کا اعلان ہونے سے ہی ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر بین الاقوامی سطح پر صدمے، افسوس اور تشویش کیا گیا۔
جاپانی وزیراعظم پر ہونے والے حملے پر رد عمل دیتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا کہ افسوسناک خبر سن کر صدمہ پہنچا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر جاری اپنے ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ ہم شنزو ابے کی جلد صحت یابی اور اچھی صحت کے لیے دعاؤں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے جذبات ان کے خاندان اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے بھی قانلانہ حملے پر تشویش کا اظہار کیا۔
انٹونی بلنکن نے بالی میں جاری جی 20 کے اجلاس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک لمحہ ہے، امریکا بہت غمگین ہے اسے گہری تشویش ہے۔
تھائی لینڈ کے وزیر اعظم بھی حملے پر صدمے میں تھے، سلطنت کے وزیر خارجہ امور نے کہا کہ شنزو ابے اور تھائی وزیراعظم اچھے دوست تھے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سابق وزیراعظم کو پیارا دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ شنزوآبے پر فائرنگ سے بہت غمزدہ ہیں۔
نریندر مودی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ میرے پیارے دوست شنزو آبے پر حملے سے بہت دکھ ہوا،ہمارے جذبات، احساسات اور دعائیں ان کے خاندان اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ سابق وزیر اعظم آبے شنزو انتقال پر 9 جولائی 2022 کو ایک دن کا قومی سوگ منایا جائے گا۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ وہ قابل نفرت حملے کے بارے میں سن کر خوفزہ اور غمزدہ ہیں۔
بورس جانسن نے کہا کہ میرے احساسات و جذبات ان کے خاندان اور پیاروں کے ساتھ ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدمے میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان پہلے رہنماؤں میں سے ایک تھے جن سے میں نے باضابطہ طور پر ملاقات کی جب میں وزیر اعظم بنی، وہ کردار کے پکے تھے، وہ فیاض اور مہربان شخص تھے۔
آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانی نے بھی واقعے کو افسوسناک قرار دیا۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے کہا کہ جاپان سے صدمہ دینے والی خبر سنی کہ سابق وزیر اعظم شنزو آبے کو گولی مار دی گئی، ہمارے جذبات اور احساسات اس وقت ان کے خاندان اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔
تائیوان کے صدر سائی انگ وین نے بھی فیس بک پوسٹ میں واقعے کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہر کوئی اتنا ہی صدمے کی کیفیت اور غمزدہ ہے جتنا میں ہوں، تائیوان اور جاپان دونوں جمہوری ملک ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے، میں اپنی حکومت کی جانب سے پرتشدد اور غیر قانونی کارروائیوں کی مذمت کرتا ہوں ۔
یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے کہا کہ وہ بزدلانہ حملے سے صدمے کی کیفیت میں اور غم زدہ ہیں۔
چارلس مشیل نے ٹوئٹ کیاکہ شنزو آبے ایک سچے دوست اور جمہوری اقدار کے بہترین محافظ تھے۔
یورپی یونین اس مشکل وقت میں جاپان اور اس کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
اسی طرح، یوروپی کمیشن کی صدر نے ٹوئٹ کیا کہ ہمارے جذبات، احسانات اور دعائیں اشزنو ابے کے خاندان اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔