ایس اے ساگر
سیاسی، معاشی، مذہبی اور سماجی لحاظ سے گذشتہ قریب4 ہزار سال سے ایشیا میں افغانستان کو اہمیت حاصل ہے۔ افغان اور فرانسیسی آثارقدیمہ کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم ان دنوںصوبہ بلخ میں مصروف کار ہے۔اپنی خبروں اور تبصروں کیلئے معتبر سمجھے جانے والے ایک خبررساں ادارہ نے گذشتہ روز اسی ٹیم میں شامل ایک خاتون کی زبانی1162تا 1227سن عیسوی کے دوران کی بدنام زمانہ شخصیت چنگیز خان کے ہاتھوںتباہی کی داستان بیان کی ہے۔ افغانستان کا بلخ شہر ماضی کے مظالم کاآج بھی جیتا جاگتا ثبوت ہے۔باختر کے میدانی علاقے افغانستان کی خفیہ تاریخ کا مجموعہ ہیں۔ اس ریگستان میں سکندراعظم کی فوج نے پیش قدمی کی، بلخ کے بادشاہ کو قتل کیا اور اس کی خوبصورت بیٹی سے شادی کی۔ اس کے تقریباً 15سو سال بعدچنگیز خان نے اس علاقے کو زیرنگیں کیا۔35 سو سال قبل زرتشت مذہب کے بانی بھی اسی علاقے میں رہے اور ممکنہ طور پر یہیں ان کی وفات ہوئی۔ تیرہویں صدی کے فارسی شاعر رومی بھی اسی بلخ میں پیدا ہوئے اور کئی افغانوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کی تدفین بھی بلخ ہی میں ہوئی۔اس علاقہ میں مٹی سے ایک دیوار تعمیر کی گئی تاکہ بلخ کے زرخیز علاقوں میں صحرائی آبادی کو داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ فرانسیسی آثارقدیمہ کے ماہرین اس علاقے میں اسی مٹی کی دیوار کا نمونہ لینے آئے ہیں جو اس وسیع قلعہ کے ارد گرد کھڑی ہے۔اس دیوار کی اصل شکل صرف سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر ہی سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ماہرین نے اس دیوار کی بنیادوں کے قریب ایک گہرا گڑھا کھودا جس میں دھاتی پائپ ڈال کر گہرائی سے مٹی نکالی گئی تاکہ سائنسدان یہ معلوم کرسکیں کہ اس کی بنیادوں میں موجود دھات کوارٹز پر آخری بار روشنی کب پڑی تھی۔ سائنسدانوں کا موجودہ اندازہ ہے کہ اس پر آخری بار روشنی 25 سو سال قبل پڑی تھی۔یہاں سے قریب ہی دولت آباد کا چھوٹا سا گاو¿ں زادیان واقع ہے۔ اس علاقہ میں آج طالبان کا طوطی بول رہا ہے۔زادیان میں مٹی کا ایک خوبصورت اور عظیم الشان مینار ہے۔ یہ مینار بارہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کو کوئی نام نہیں دیا گیا تھا۔یہ مینار نہ صرف چنگیز خان کی فوج کی نظروں سے بچا رہا بلکہ یہاں سیاحت کیلئے آنے والوں کی نظر بھی شاید اس شاندار مینار پر نہ پڑ سکی۔ 2001 کے دوران اسی افغانستان میں امریکہ اور اتحادی فوجیں طالبان پر بمباری کر رہی تھیں۔
’خان‘ پر زبردست
تاریخ کے ماہرین کی نظر میں چنگیز خاں نے اپنی منگول قوم پرزیادتی کا انتقام لینے کی غرض سے شدید تباہی مچائی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ ’خان‘ ہونے کے سبب یہ مسلمانوں کی آپسی جنگ محسوس ہوتی ہے۔ تاریخ کے اوراق الٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ چنگیز غیر مسلم تھا جس کی سلطنت اتنی وسیع ہوگئی تھی کہ اس کی حدیں سلطان حکمران علا الدین خوارزم شاہ کی عظیم سلطنت سے جاملی تھیں۔ اپنی قوم اور سلطنت کی ترقی کیلئے اس نے سوچا کہ ان دونوں سلطنتوں کے درمیان تجارتی اور سفارتی رابطوں کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔ چنانچہ اس نے سلطان علا الدین خوارزم شاہ کے یہاں قیمتی تحائف کیساتھ ایک قاصد بھیجا جس سے سلطان علاالدین خوارزم شاہ بہت خوش ہوا اور جواب میں چنگیز خان کا شکریہ ادا کیا اور اس کیلئے قیمتی تحائف روانہ کئے۔ سلطان علا الدین خوارزم شاہ کے تحائف لے کر جب یہ قاصد واپس پہنچا تو چنگیز خان بھی بہت خوش ہوا اورحکم دیا کہ دونوں سلطنتوں کے ایک دوسرے سے قریب لانے کیلئے مزید اقدامات ہونا چاہئیں اور تجارتی قافلوں کا دونوں سلطنتوں میں آنا جانا ہونا چاہئے۔
کس نے کی مظالم کی ابتدا؟
چنانچہ چنگیز خان کے حکم پر چار سو افراد پر مشتمل چارسو تاجروں کا ایک کارواں تیار کیا گیا جو قیمتی سامان لیکر روانہ ہوا جس کا مقصد یہ تھا کہ منگول اپنا تجارتی سامان سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کی سلطنت میں فروخت کریں اور اس کے بدلے میں اپنی ضروریات کا سامان وہاں سے خرید کر لائیں۔جب سلطان کی سلطنت میں اترا ر کے مقام پر پہنچا اور وہاں قیام پذیر ہوا تو وہاں کا حاکم اینال ،جو سلطان کا ماموں تھا ، ان کے پاس قیمتی سامان دیکھ کر اس کی نیت خراب ہوگئی۔ اس نے اس قافلہ کے تمام تاجروں کو گرفتار کرلیا اور سلطان کو ایک خط لکھا کہ’ منگولوں کا ایک کارواں جو چارسو افراد پر مشتمل ہے اور تجارت کے بہانے ہماری سلطنت میں جاسوسی کرنے کیلئے آیا ہے۔لہٰذا میں نے انھیں اپنی سرحد روک لیا ہے۔ ان کیلئے آپ کا کیا حکم ہے؟‘ سلطان نے اسے جوابی پیغام میں کہا کہ وہ حالات کی مناسبت سے اپنی مرضی کے مطابق ان لوگوں سے جو چاہے سلوک کرے۔ سلطان کا ماموں یہ جواب سن کر خوش ہوگیا کیونکہ اس کی لالچی نظریں منگولوں کے تجارتی اور قیمتی سامان پر تھیں چنانچہ اس نے اس قافلہ کے تمام تاجروں کو قتل کرواکر ان کے مال پر قبضہ کرلیا۔ صورتحال خراب ہونے کی بنیاد اسی وقت پڑگئی تھی جب ان میں کا ایک آدمی جو قتل ہونے سے بچ گیا تھا‘ اس نے چنگیز خان کے پاس پہنچ کر اس کوسانحہ سے آگاہ کردیا۔ چنگیز خان کو اپنے چار سو تاجروں کے قتل پر سلطان علاءالدین خوارزم شاہ اور اس کے ماموں پر بڑا غصہ آیا۔ تمام منگول چنگیز خان کہنے لگے کہ ہمیں اپنے ان چارسو تاجروں کے قتل کا انتقام لینا چاہئے۔ چنگیز خان ایسا کوئی قدم اٹھانے سے قبل اس معاملہ میں سوچ سمجھ سے کام لینا چاہتا تھا۔لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ پہلے اس معاملے کو سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور احتجاج کرنا چاہئے۔
غیبی تائید شامل حال:
اس نے ایک قاصد سلطان کی طرف روانہ کیا اور مطالبہ کیا کہ آپ کے علاقے میں اترار کے حاکم نے ہمارے چارسو تاجروں کو قتل کرکے ان کے تجارتی سامان پر قبضہ کرلیا ہے ، لہٰذا اترار کے حاکم اینال کو ہمارے حوالے کیا جائے تاکہ ہم اسے مناسب سزا دیں اور ہمارے تاجروں کا سامان ہمیں واپس کیا جائے۔چنگیز خان کے قاصد نے جب یہ مطالبہ سلطان تک پہنچایا تو سلطان یہ پیغام سن کربہت زیادہ برہم ہوا ‘ اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ قاصدوں کا قتل کسی بھی قوم میں درست خیال نہیں کیا جاتا‘اس نے حکم دیا کہ یہ پیغام ناقابل عمل اور گستاخانہ ہے ، اسے قتل کردیا جائے، لہٰذا سلطان کے حکم پر اس قاصدکو قتل کردیا گیا۔افسوس کہ سلطان علاءالدین خوارزم شاہ اگر اس موقع پر دانش مندی سے کام لیتا اور انصاف سے کام لیتے ہوئے اترار کے حاکم کو ضبط شدہ سامان تجارت کیساتھ منگولوں کو واپس لوٹادیتا تو شاید آج دنیا کی تاریخ میں مسلم تاریخ پہلے کی نسبت مختلف اور بہت عمدہ ہوتی۔سلطان کی اس ناعاقبت اندیشی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جب چنگیز خان کو اپنے قاصد کے قتل کی اطلاع ملی تواسے اپنی کم مائیگی کے سبب بڑی لاچار محسوس ہوئی۔ اسے یقین تھا کہ مسلمان بھلے ہی ظالم ہوں لیکن مسلمانوں کا خدا ظالم نہیں ہوسکتا۔وہ تن تنہا ایک پہاڑی پرچڑھ گیا اور ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر ریاضت کرتا رہا۔بالآخر اسے ایک غیبی آواز آئی کہ آگے بڑھو‘ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔‘چنگیز نے اس کے بعد یہ عہد کیا کہ وہ سلطان علا الدین خوارزم شاہ کو اس توہین کا ایسا سبق سکھائے گا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے گا۔اسی انتقامی جذبہ نے افغانستان سمیت پورے عالم اسلام میں وہ عبرت انگیز نقوش چھوڑے ہیںکہ انسانیت تھراجاتی ہے۔1219کے دوران اس واقعہ نے اس کو تسخیر عالم پر ابھارا اور وہ دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکل کھڑا ہوا۔ اسی سال اس نے شمالی چین اور افغان سرحد کے کئی علاقے فتح کئے۔ بخارا اور مرو کے علاقوں کو لوٹا اور ہرات پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد ترکی اور جنوب مشرقی یوروپی ملکوں کا رخ کیا۔ اس کی فوجوں نے جنوبی روس اور شمالی ہند تک یلغار کی۔
کون تھا چنگیز خان؟
سید شہزاد ناصر نے’تاریخ کا مطالعہ‘ میں واضح کیا ہے کہ صحرائے گوپی کے شمال میں دریائے کیرولین اور دریائے اونان کی زرخیز وادیوں میں ان گنت قبائل آباد کیساتھ ساتھ منگولوں کے بھی قبائل آباد تھے۔ منگولوں کے ایک قبیلہ میں یسوکائی نامی شخص کے گھر1162کے دوران ایک بچہ کی ولادت ہوئی جس کا نام اس نے تموچن رکھا۔ تموجن کا مطلب ہے’لوہے کا کام کرنے والا۔‘اس موقع پر اس قبیلے کے بعض دانا لوگوں نے یہ پیش گوئیاں کیں کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر ایک ظالم وجابرجنگجو حکمران ر بنے گا۔ منگول وحشی قسم کی شکاری قوم تھی ، چونکہ یہ علاقہ برفانی تھا اس لئے انھیں برفباری اورسردی سے بچاوکیلئے کھالوں کی ضرورت پڑتی تھی ، جس کیلئے یہ لوگ چھپ کرمنصوبہ بند طیقہ سے جنگلی گھوڑوں اور بارہ سنگھوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ سردی سے بچنے کیلئے یہ جانوروں کے گوشت کیساتھ ساتھ انکی آنتیں تک کھالیتے اور ان کا خون بھی پی لیتے تھے۔ جس وقت تموچن پیدا ہوا اس کی قوم سینکڑوں خاندانوں میں بٹی ہوئی تھی اور اس کا اپنا قبیلہ بھی ان سے ناراض تھا۔ ابھی یہ لڑکا چھوٹا ہی تھا کہ اس کے باپ کو اس کے دشمنوں نے زہر دے کر ہلاک کردیا۔اس طرح یہ لڑکا اپنی بیوہ ماں کے زیرسایہ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے ہمراہ پروان چڑھتا رہا۔ اس کی ماں اکثر راتوں کو اسے اپنے پاس بٹھا کر اس کے آباو اجداد کی بہادری اور جرات کے واقعات سنایا کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تموچن بچپن ہی سے نڈر اور بہادر تھا۔1175کے دوران محض13 برس کی عمر اس کے باپ نے اس کی شادی کر دی، چونکہ شروع ہی سے چنگیز خان نہایت شاہانہ مزاج کا آدمی تھا اس لئے اپنی لیاقت کی بنا پر اسی سال تخت پر متمکن ہوا۔
کیسے ملی قبیلہ کی سرداری؟
اس قدیم دور میں قبائل کے درمیان دشمنی اپنے عروج پر تھی۔ ایک دن یہ لڑکا جنگل سے اکیلا گزر رہا تھا جہاں دشمن قبیلہ کے چھ نوجوان اسے قتل کرنے کیلئے گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان نوجوانوں کو دیکھ تموچن بالکل نہیں ڈرا ، بلکہ اپنی تلوار نکال کر ان کی طرف دوڑا ان لڑکوں نے اس کی طرف تیر پھینکے لیکن وہ ان سے بچتا ہوا ان پر حملہ آور ہوا اور انھیں ہلاک کردیا، انکے گھوڑے لیکرجب وہ اپنی ماں اولون کے پاس پہنچاتو اس کی ماں اس کی بہادری سے بہت خوش ہوئی۔ بڑا ہونے کے بعد تموچن اور اس کے قبیلہ پر سب سے پہلے جو مصیبت آئی ، وہ یہ تھی کہ اس علاقے کہ ایک دشمن قبیلہ جس کا سردار ترغا تائی تھا ، اس نے اچانک ان پر حملہ کردیا۔تموچن اور اس قبیلے کے لوگ ان کا مقابلہ نہ کرسکے اور بھاگ کھڑے ہوئے لیکن تموچن کی بدقسمتی وہ ان کے ہاتھ لگ گیا ، اسے گرفتار کرکے انھوں نے اسے اپنے سردار ترغا تائی کے سامنے پیش کیا تو اس نے تموچن کو ایک خیمہ میں قید کردیا۔ خوش قسمتی سے اسے اس خیمہ سے بھاگنے کا موقع مل گیا اور چھپتا چھپاتا واپس اپنے قبیلے میں پہنچ گیا۔ تموچن کے قبیلے کے لوگوں نے محسوس کیا کہ انسانوں کے اس جنگل میں وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس کے پاس طاقت اور قوت ہو ، چنانچہ انھوں فیصلہ کیا کہ وہ اپنا ایک مضبوط اور بڑا لشکر تیار کریں گے۔اس سلسلہ میں انھوںنے ایک مجلس بلائی جس میں قبیلہ کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ تموچن ایک بہادر اور دلیر نوجوان ہے ، لہٰذا اسے قبیلہ کا سردار بنادیا جائے۔ اس طرح تموچن 1175 کے دوران اپنی دلیری اور بہادری کی وجہ سے منگولوں کے قبیلے کا حاکم اور سردار بن گیا۔ اس وقت منگولیا پر کئی قبائل کی حکومت تھی۔ اس نے سب سرداروں کو اکٹھا کیا اور مل کر دیگر علاقوں کو فتح کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ آنان کے قریب اپنی مقبولیت کی بدولت اسے مجلس کے دوران ہی چنگیز خان کا خطاب بھی دیاگیا۔
اجتماعیت کی ابتدا:
چنگیز خان نے منگولوں کا حاکم اور سردار بننے کے بعد کوشش کی کہ اس علاقے کے تمام قبائل کو اکھٹا کیا جائے اوریہ حکم جاری کیا کہ اس علاقے میں جتنے بھی قبائل ہیں کوئی ایک دوسرے پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا، اس اعلان کے بعد اس کے حامیوں اور لشکر میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ، کچھ ہی عرصہ میں اس کے لشکر میں سپاہیوں کی تعداد تیرہ ہزار کے لگ بھگ ہوگئی۔ اسی اثنا میں صحرائے گوپی کے شمالی علاقے کے ایک قبیلہ تائی جوت جس کے سردارکا نام تپرغا تائی تھا۔اس نے چنگیز خان کے حامیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ،دیکھ کر اس پر حملہ کرنے کی ٹھان لی اوراپنے تیس ہزار کے لشکر کیساتھ حملہ کرنے کیلئے آگے بڑھا تو چنگیز خان نے بڑی دلیری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو جوابی کاروائی کو حکم دیا اس کے سپاہیوں نے دشمن پر انتہائی تیز رفتاری سے حملہ کیا اور اتنے تیر برسائے کہ جنگ کے ابتدائ ہی میں تپرغا تائی کے لشکر کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑااور اس کے بعد انتہائی ہولناک دو بدو جنگ شروع ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں چنگیزخان کے سپاہیوں کو پہلی بار شاندار فتح حاصل ہوئی اور دشمن قبیلہ کا سردار تپرغا تائی شکست کھاکر بھاگ گیا۔ کسی دشمن کے خلاف چنگیز خان کی یہ پہلی فتح تھی۔دشمن کے خلاف جنگ میں اس فتح نے چنگیز خان کے حوصلوں کو مزید بلند کردیا اور اس نے اپنے لشکر کی تعداد میں مزید اضافہ کرنا شروع کردیا۔ وہ ایک ناقابل تسخیر طاقت بن کر ابھرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ جب اس کی طاقت اور لشکر کی تعداد خوب بڑھ گئی تو اس نے چین کو فتح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ چین پر حملہ آور ہونے میں اس کے راستے میں سپاسا ، تائی جوت اور تاتاری نامی تین بڑے قبیلے آتے تھے۔لہٰذا چین پر حملہ کرنے سے پہلے اس نے ان تینوں قبیلوں پر حملہ کرکے انھیں اپنا فرمانبردار بنالیا اور ان قبیلوں کی اکثریت کو اپنے لشکر میں شامل کرلیا۔چنگیز خان نے باقاعدہ طور پر منگول سلطنت کو ایک مضبوط سلطنت کے طور پر متعارف کروایا، منگول سلطنت کی فوج کی تنظیم نو کیساتھ ساتھ دیگر اداروں کو بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا۔ اس نے فوج کی تنظیم کے جو اصول مقرر کئے وہ صدیوں تک فوجی ماہروں کیلئے مشعل راہ کا کام دیتے رہے۔ اس نے چین کو دو دفعہ تاراج کیا اور 18تا1214میں دو چینی ریاستوں ہیا اور کن پر قبضہ کر لیا‘ یہ الگ بات ہے اسے شدید جدوجہد کرنی پڑی۔
ر تیزرفتاری کوبنایا جنگی حربہ:
دراصل چین پر اس وقت ’کن ‘ خاندان کی حکومت تھی۔ ان کے سپہ سالاروں کو جب یہ اطلاع ملی کہ چنگیز خان ان پر حملہ کرنے والا ہے تو انھوں نے بھی جوابی کاروائی کی تیاریاں شروع کردیں۔ چین میں اکثر شہر وں کے گرد قلعے اور فصیلیں بنی ہوئی تھیں۔ اس جنگ کیلئے چنگیز خان نے یہ منصوبہ بندی کی کہ اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے اپنے چار وں بیٹوں جوچی، چغتائی، اوغدائی اور تولائی کو ان لشکروں کا سردار بنادیا۔ اور یہ حکمت عملی اختیار کی کہ جن شہروں یا قصبوں کے گرد قلعے اور فصیلیں نہیں تھیں ان پر حملہ کرکے انھیں فتح کرنا شروع کردیا۔ چنگیز خان نے انتہائی برق رفتاری سے کام لیا اور تیزرفتاری کو اپنا جنگی حربہ بنایا۔ وہ چین کی سرزمین پر اپنے لشکرکیساتھ جگہ جگہ چین کے سست رفتار لشکروں پر حملہ آور ہوتا اور انھیں بے حد نقصان پہنچاکر ان سے مال واسباب چھین لیتا۔ اس طرح اس نے چین میں ایک طوفان کھڑ ا کرکے رکھ دیا اور ان تمام شہروں کو جن کے گرد قلعے یا فصیلیںنہیں تھیں‘ فتح کرلیا۔ چنگیز خان کی حکمت عملی اورجنگی منصوبہ بندی نے چینیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔چنگیز خان اوراس کے سپاہی اب چین کی سرزمین سے کافی حد تک واقف ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس نے اب ان شہروں کو فتح کرنے کا ارادہ کرلیاجن کے گرد قلعے اور فصیلیں بنی ہوئی تھیں اور حربہ کے طور پر اس نے اپنے اس خوف کو استعمال کیا جو اس علاقے میں پھیل چکا تھا۔ اس نے چینی لشکروں پر اپنی دہشت پھیلانے کیلئے یہ اعلان کردیا کہ جو منگولوں کے سپاہیوں سے جنگ کرے گا ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جائے گا اور جو چنگیز خان کی اطاعت کرے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔
گھر کے بھیدیوں نے ڈھائی لنکا:
چنگیز خان نے اب تک کی جنگوں میں فتوحات کے دوران چین کے جن سپہ سالاروں کو گرفتار کیا تھا ، انھیں اپنے لشکرکے آگے رکھا جو اسے چین کے مختلف قلعوں اور شہروں میں داخل ہونے کے راستوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ اس طرح چنگیز خان اپنے چاروں لشکروں کیساتھ ایک ایک کرکے چین کے تمام قلعے اور شہر فتح کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ اسے شاندار فتوحات حاصل ہورہی تھیں اور اس کے حوصلے بلند ہورہے تھے ، جو بھی شہر یا قلعہ فتح کرتا وہاں تباہی و بربادی کا بازار گرم کردیتا ، مال و اسباب اور جوان مرد و عورتوں کو غلام اور کنیزیں کے طور پر قبضہ میں لینے کے بعد ان شہروں کو آگ لگوا دیتا۔ اس طرح اس نے پورا چین فتح کرلیا۔ چین فتح کرنے کے بعد اس نے دیگر ممالک پر بھی لشکر کشی کرکے ان پر قبضہ کرلیا۔ منگول سلطنت کا سکہ قائم کرنے کے بعدچنگیز خان نے دیکھا کہ اسکی سلطنت اتنی وسیع ہوگئی ہے کہ اس کی حدیں اب مسلم سلطان حکمران علاالدین خوارزم شاہ کی عظیم سلطنت سے جاملی ہیںلہذا تجارتی اور سفارتی رابطوں کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ سلطان علا الدین خوارزم شاہ کی ناعاقبت اندیشی اور نا انصافی کے سبب دنیا کی تاریخ میں مظالم کا ایک نیا اور ناقابل فراموش باب کھل گیاجس سے انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں پر حملہ کرنے سے قبل چنگیز خان نے اپنے بھائی کو اپنی جگہ سلطنت کاقائم مقام حاکم مقرر کیا اور اپنے ڈھائی لاکھ سپاہیوں کے ہمراہ سلطان علا الدین خوارزم شاہ پر حملہ کیلئے روانہ ہوگیا۔روانگی سے قبل ا س نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے اس کی کمان اپنے چاروں بیٹوں کے سپرد کردی تھی۔اس دوران اسے اطلاع ملی کہ اسکا ہمسایہ اور دشمن اپنے علاقے سے نکل سلطان علاالدین خوارزم شاہ کی سلطنت میں جند شہر پہنچ رہا ہے۔ اس نے فور اََ اپنے بیٹے جوچی اور ایک بہترین سالا ر کو ایک لاکھ سپاہیوں کا لشکر کیساتھ اس کے پیچھے روانہ کیا۔ جوچی اپنے لشکر کیساتھ اس کا پیچھا کرتے ہوئے سلطان علاالدین خوارزم شاہ کے علاقے میں داخل ہوگیا۔ اس وقت اس علاقے میں سلطان علاالدین خوارزم شاہ بھی اپنے لشکر کیساتھ پڑاوکئے ہوئے تھا اوراس سے چند میل کے فاصلے پر اسکا بیٹا جلال الدین بھی اپنے لشکر کیساتھ موجود تھا۔سلطان کو جب یہ خبر ملی کہ چنگیز خان کا بیٹا اپنے ایک لاکھ کے لشکر کیساتھ اس کے علاقے میں داخل ہوا ہے تو اسے بے حد غصہ آیا۔ سلطان علاالدین خوارزم شاہ اور اس کے سپاہی جنگ کا بہترین تجربہ رکھتے تھے لیکن منگول سپاہی بھی چین میں مسلسل جنگوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے سلطان کے مقابلے میں زیادہ جنگی مہارت رکھتے تھے۔
جو ڈرگیا‘ سو مرگیا:
سلطان علا الدین خوارزم شاہ اپنے لشکر کیساتھ منگولوں کے لشکر کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ دونوں لشکروں میں گمسان کی جنگ ہوئی۔چنگیز خان کے سپاہیوں نے اتنا زور دار حملہ کیا کہ وہ سلطان کے لشکر کو ایک طرف سے کاٹتے ہوئے اس کے درمیانی حصہ کی طرف چلے گئے۔ سلطان کے سپاہی بھی ڈٹے ہوئے تھے اور جان توڑ کر لڑرہے تھے ، قریب تھا کہ سلطان کو شکست ہوجاتی ، خوش قسمتی سے اسکا بڑا بیٹا جلال الدین خوارزم شاہ بھی اپنے لشکر کے ہمراہ وہاں پہنچ گیااور منگولوں پر اتنا زور دار حملہ کیا کہ منگولوں پیچھے ہٹنا پڑا اورچنگیز خان کا بیٹا جوچی اپنے لشکر کو لے کربھاگ نکلا۔ اس جنگ میں سلطان کے بہت زیادہ سپاہی مارے گئے۔ اپنے سپاہیوں کے اتنی بڑی تعدادکو ہلاک دیکھ کر سلطان بہت زیادہ فکر مند اور خوفزدہ ہوگیا۔اس نے اندازہ لگایا کہ منگول دوسری قوموں کے مقابلہ میں زیادہ نڈر اور جری ہیں اور بے خوفی سے حملہ آور ہوتے ہیں لہٰذا اس نے اپنے طور فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ منگولوں سے نہیں لڑے گا۔ منگولوں کا خوف سلطان علا الدین خوارزم شاہ کے دل و دماغ اتنا حاوی ہو ا کہ وہ بجائے اس کے کہ چنگیز خان کے مزید حملوں سے نبرآزما ہونے کیلئے مزید جنگی منصوبہ بندی کرتا غلطیوں پر غلطیاں کرتا رہا۔ اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ چنگیز خان کے لشکر کو شکست دینے کے بعد وہ اپنے تمام لشکر کو لے سمرقند پہنچ گیاحالانکہ اس کے لشکر کی تعداد اسوقت چار لاکھ کے قریب تھی۔ دوسرے بڑی غلطی اس نے یہ کی کہ اپنے لشکر کو اس نے مختلف حصوں میںمنقسم کردیا۔ اپنے لشکر میں سے اس نے ساٹھ ہزار کا لشکر اپنے ماموں اینال کی طرف روانہ کردیا جس کی وجہ سے چنگیز خان اس کی سلطنت پر حملہ آور ہوا تھا۔ تیس ہزار کا لشکر اس نے بخارا کی طرف اور تقریبا دو لاکھ کا لشکر سمرقند کی حفاظت کیلئے متعین کرکے باقی لشکر اپنے پاس رکھا۔ اس طرح سلطان علا الدین خوارزم شاہ نے اپنی جنگی طاقت کو کمزور اور متشرکرلیا۔
کیوں کیا نجومیوں پر یقین؟
اپنے لشکر کو تقسیم کرکے سلطان علاالدین خوارزم شاہ اپنی جنگی طاقت کو پہلے ہی کمزور کرچکا تھا اس سے ایک حماقت اور ہوئی جس کی وجہ سے اس کے سپاہی اس سے بد دل ہوگئے، وہ حماقت یہ تھی کہ سمرقند میں قیام کے دوران جب سلطان ایک خندق کا معائنہ کررہا ، خندق کا جائزہ لینے کے بعد اپنے سپہ سالاروں اور سپاہیوں سے کہنے لگا کہ ہم پر اتنی بڑی قوم نے حملہ کردیا ہے اگر وہ اپنے تازیانے ہی اس خندق میں ڈال دیں تو یہ خندق اسی سے بھر جائے گی۔جب سلطان سمرقند سے خراسان کی طرف روانہ ہوا اس کے سپاہی سمجھ گئے کہ سلطان اب منگولو ں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔یہ وہی سلطان علاالدین خوارزم شاہ تھا جو جوانی میں بڑے بڑے سرکش دشمنوں کو زیر کرلیا کرتا تھا۔ لیکن منگولوں کا اس پر ایسا رعب اور خوف طاری ہوا کہ اس نے ان سے ٹکرانے کا ارادہ ترک کردیا۔ سلطان کو چنگیز خان کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں کہ چنگیز خان اپنے چاروں بیٹوں کی کمان میںاپنے لشکر کیساتھ ایک ایک کرکے مسلمانوں کے تمام شہروں قبضہ کرتا جارہاہے۔ ادھر سلطان علا الدین کے دل میں چنگیز خان کا خوف لئے اپنا دو لاکھ کا لشکر لیکر کبھی کسی شہر کبھی کسی شہرمنگولوں کے آگے آگے بھاگتا پھر رہاتھا، اس بڑے بیٹے جلال الدین اور سپہ سالاروں نے اس سے کہا کہ اگر آپ منگولوں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے تو کچھ محافظوں کولے کر کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں۔ ہمارے پاس دو لاکھ کا لشکر موجود ہے اگر ہم منگولوں کے سامنے ڈٹ جائیں تو انھیں مار مار کر واپس جانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔لیکن کچھ بدبخت نجومیوں نے سلطان کو یہ مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو منگولوں سے نہیں لڑنا چاہئے ورنہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔یہ بات سلطان کے ذہن میں بیٹھ گئی اس نے نہ تو اپنے سپہ سالاروں کی بات مانی اور نہ ہی اپنے بیٹے کی۔چنانچہ سلطان نے یہی کیا اور ایک جزیرے میں روپوش ہوگیا۔ اس نے اپنے اہل خانہ کو جس قلعہ میں محفوظ کیا تھا اس قلعہ تک منگول پہنچ گئے اور اس کا محاصرہ کرلیا اور تھوڑی سی مزاحمت کے انھوں نے قلعہ پر قبضہ کرکے تمام محافظوں اور دیگر مردوں کو قتل کردیا۔ جن میں سلطان کے قریبی عزیز اور بوڑھی عورتیں بھی تھیں۔ سلطان کی بیٹیوں اور خوبصورت لڑکیوں کومنگول سرداروں نے آپس میں بانٹ لیا ، جب یہ افسوس ناک خبر سلطان کو ملی شدت غم سے اسے ایسا دھچکا لگا کہ کچھ دن بیمار رہ کر مرگیا۔
بزدلی کا کیا نکلتا ہے نتیجہ؟
چنگیز خان نے اپنے چاروں بیٹوں کی کمان میں اپنے لشکر کیساتھ ایک ایک کرکے مسلمانوں کے بہت سے شہروں پر قبضہ کرلیا وہاں موجود مسلمان اور انکے سپہ سالاروں نے اپنی محدود قوت کے باوجود ان سے مقابلہ کیا، لیکن منگولولوں کے اس طوفان کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ انھوں نے مسلمانوں کے جن شہروں پر حملہ کیا وہاں ظلم اور بربریت کی انتہا کردی ، عورتوں بچوں اور مردو ں کا قتل عام کیا گیا اور مکتب ، مدرسے، مسجدیں ، لائبریریاں اور کتب خانے ، تہذیبی اور ثقافتی مرکز تباہ و برباد کردیئے گئے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ سلطان علا الدین خوارزم شاہ کی بزدلی کی وجہ سے منگولوں نے اسکی عظیم الشان سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دی۔سلطان علاالدین کی بزدلی اور طرز عمل انتہائی نفرت کے قابل ہے۔ سلطان علا الدین خوارزم شاہ کی موت پرچنگیز خان بہت خوش ہوا ، وہ سلطان کے بڑے بیٹے جلال الدین خوارزم شاہ کی دلیری اور جرات مندی سے بھی واقف تھا۔اسے اس بات کابھی اندازہ تھا کہ اگر جلد ہی جلال الدین کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ منتشر مسلمانوں کو جمع کرکے اس کے خلاف کوئی لشکر تیار کرلے اور منگولوں کے ساری فتوحات کو بدترین شکست میں تبدل کردے۔ لہٰذا چنگیز خان نے اپنے بیٹوں اور سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ وہ جلال الدین خوارزم شاہ کو تلاش کریں۔ دوسری جانب سلطان علا الدین خوارزم شاہ کی موت کے بعد مسلمانوں میں افراتفری کا عالم تھا ، ان کے لشکر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر اپنی قوت اور طاقت کھو چکے تھے بستیاں اجڑگئیں تھیں اور شہر تباہ ہوچکے تھے۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ماری جاچکی تھی ، جن بستیوں اور شہروں پر چنگیز خان اور اسکے سپاہیوں نے حملے کئے انھیں مکمل طور پرتباہ و برباد کردیا تھا۔ بچے کچھے لوگ پہاڑوں اور جنگلوں میں جاچھپے تھے۔ ایسے میں مسلمانوں کو اگر کو بچاوکی کوئی صورت آتی تھی تو وہ سلطان علا الدین خوارزم شاہ کا بڑا بیٹا جلال الدین خوارزم شاہ تھا، لیکن وہ اکیلا منگولوں کے خلاف کیا کرسکتا تھا؟
تخت یا تختہ کا انتخاب:
بہرحال جلال الدین نے جب اپنے باپ کی موت کے بعد سلطان کا منصب سنبھالا تو اس کے سامنے دو راستے تھے ، پہلا یہ کہ وہ اپنے باپ سلطان علا الدین خوارزم شاہ کی طرح ذلت اور رسوائی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے منگولوں کے آگے آگے بھاگتا پھرے۔ دوسرا یہ کہ جواں مردی اور شجاعت سے کام لیتے ہوئے عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دے۔ چنانچہ سلطان جلال لدین خوارزم شاہ نے دوسرا راستہ اختیارکیااور لشکر تیار کرکے چنگیز خان سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور بچے کچھے سپاہیوں کو لیکر سلطنت کے مرکزی شہر خوارزم کی طرف روانہ ہوگیا۔جلال الدین جب خوارزم پہنچا تو وہاں کے لوگ اسے دیکھ بہت خوش ہوئے اور وہ سپاہی جو سلطان علاالدین کی بزدلی کی وجہ سے ادھر ادھر بھاگ گئے تھے سلطان جلال الدین کے پاس جمع ہونا شروع ہوگئے اس طرح چند ہی دنوں میں سلطان جلال الدین کے پاس سات ہزار سپاہی جمع ہوگئے۔ چنگیز خان کو جب یہ اطلاع ملی کہ جلال الدین خوارزم شاہ ایک چھوٹے سے لشکر کیساتھ خوارزم شہر میں مقیم ہے تو اس نے فوراََ ایک لشکر خوارزم پر حملہ کرنے کیلئے روانہ کردیا ، وہ کسی طور یہ نہ چاہتا تھا کہ جلال الدین زندہ رہے یا اس کے خلاف لشکر جمع کرے ، وہ اسے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ محسوس کرتا تھا کیونکہ وہ جلال الدین کی شجاعت اور بہادری سے واقف تھا۔ منگولوں نے جب سلطان جلال الدین پر حملہ کیا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بھی اپنے باپ کی طرح ان کا نام سن کر بھاگ کھڑا ہوگا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا سلطان جلال الدین اپنے چھوٹے سے لشکر کیساتھ منگولوں کے کئی گنا بڑے لشکر پر ٹوٹ پڑا اور اتنی بے جگری سے لڑا کہ منگول سپاہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ سلطان کے ہاتھوں منگولوں کی یہ پہلی شکست تھی۔ اس کے بعد سلطان جلال الدین یہاں سے آگے روانہ ہوگیا راستہ میں اسے اطلاع ملی کہ آگے منگولوں کا ایک اور بڑا لشکر اسے روکنے کیلئے تیار کھڑا ہے۔ لیکن سلطان نے ہمت نہ ہاری اور آگے بڑھا ، جب اس مقام پر پہنچا جہاں منگولوں کا لشکر موجود تھا۔ منگولوں نے اس پر حملہ کردیا ، سلطان جلال الدین نے اپنے چھوٹے سے لشکر کو اس منظم طریقے سے منگولوں سے لڑوایا کہ منگول حیران رہ گئے ، اس لڑائی میں سلطان اور اسکے سپاہیوں نے بے شمار منگولوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، منگول اپنے لشکر کا اسقدر جانی نقصان دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے سلطان جلال الدین کے ہاتھوں منگولوں کی یہ دوسری شکست تھی۔
مشرقی ہندیاافغانستان پر دستک :
چنگیز خان جو سلطان جلال الدین کے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے پر بے حد پریشان اور فکر مند تھا‘ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے منتشر مسلمانوں کو اپنے گرد جمع کرلیا تو منگولوں کا نام و نشان مٹادے گا۔ وہ جلد سے جلد سلطان جلال الدین کا خاتمہ چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے ایک اوربہت بڑ ا لشکر سلطان پر حملہ کرنے کیلئے روانہ کردیا۔ سلطان جلال الدین کے لشکر کی تعداد اب اٹھارہ ہزار کے قریب ہوگئی تھی۔ اسے اس کے مخبروں نے اطلاع دی کی منگولوں کے ایک بہت بڑے لشکر نے مسلمانوں کے شہر قندز‘جوآج افغانستان کا حصہ ہے‘ اس کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور وہاں کے لوگ بہادری سے انکا مقابلہ کررہے ہیںجبکہ منگولوں کو شہر میں داخل نہیں ہونے دے رہے ہیں، چنانچہ سلطان اور اس کا لشکر منگولوں پر ٹوٹ پڑا گھمسان کی جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں منگولوں کوبدترین شکست ہوئی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ سلطان کے ہاتھوں منگولوں کی یہ تیسری شکست تھی۔ اس کامیابی کے بعد سلطان اپنے لشکر کیساتھ غزنی سے ہوتا ہوا بروان شہر پہنچا ، جہاں اسے اطلاع ملی کہ منگولوں کے ایک لشکر نے بامیان شہر کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ سلطان جلال الدین اپنے لشکر کیساتھ بامیان شہر پہنچا اور منگولوں پر موت طاری کرنے والا حملہ کردیا منگول ایک مرتبہ پھر بھاگ کھڑے ہوئے اس طرح سلطان کے ہاتھوں منگولوں کی یہ چوتھی شکست تھی۔چنگیز خان کو جب اس چوتھی شکست کی خبر ملی تو اسے منگولوں کی کمزوری ، ذلت اور شکست پر بڑا غصہ آیا اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ سلطان جلال الدین سے اپنی اس ذلت اور رسوائی کا انتقام ضرور لے گا۔ اس نے فورا تیزرفتار قاصد روانہ کئے کہ وہ اس شکست خوردہ لشکر کو وہیں رکنے کا حکم دیں اور کہیں کہ چنگیز خان خود وہاں جلال الدین کا مقابلہ کرنے کیلئے آرہا ہے۔
آپسی انتشار نے بگاڑا کھیل:
سلطان جلال الدین کو جب یہ اطلاع ملی کہ چنگیز خان خود ایک بہت بڑے لشکر کیساتھ اس پر حملہ آور ہونے کیلئے آرہا ہے تو اس نے چنگیز خان سے ٹکرانے کا عزم کرلیا، اس موقع پر سلطان جلال الدین نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا ، درمیانی حصہ کا لشکر سلطان نے اپنے پاس رکھا ، دائیں اور بائیں جانب کے حصہ کا لشکر اپنے دو سپہ سالاروں سیف الدین اور امین الملک جو جنگ کا بہترین تجربہ رکھتے تھے ، انکی کمان میں دیکر، بروان شہر کے باہر کھلے میدان میں اپنے لشکر کیساتھ چنگیز خان کا انتظار کرنے لگا۔چنگیز خان نے آتے ہی مسلمانوں پر اپنی پوری طاقت سے حملہ کردیا۔ سلطان نے اپنے سپاہیوں کیساتھ تکبیربلند کی اور پوری قوت سے منگولوں سے ٹکراگیا، بروانی شہر کے گرد و نواح کے میدان میں سارا دن منگولوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ جاری رہی۔ آخر چنگیز خان اور اس کا لشکر جلال الدین کے سپاہیوں کے سخت حملوں کی تاب نہ لاسکے اور ان کے پاوں اکھڑ گئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب منگول بھاگے تو اس وقت سلطان جلال الدین کے جوش اور جذبے کی حالت دیکھنے والی تھی۔ مسلمانوں نے چنگیز خان کے سپاہیوں کا تعاقب کرتے ہوئے انکا خوب قتل عام کیا۔ سلطان جلال الدین کے ہاتھ چنگیز خان کی یہ پانچویں شکست تھی۔ چنگیز خان کی اس شکست کے بعد سلطان جلال الدین کے لشکر میں بھی ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہوا۔ سلطان کے لشکر کے دونوں سپہ سا لاروں امین الملک اور سیف الدین کے درمیان ایک انتہائی خوبصورت اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے کی وجہ سے تکرار شروع ہوگئی جو اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا۔ امین الملک نے غصے میں آکر گھوڑے کا چابک سیف الدین کے سر پر دے مارا، جس کی شکایت سیف الدین نے سلطان جلال الدین سے کی ، سلطان کشمکش میں پڑ گیا ، کیونکہ ان دونوں کے ماتحت کافی بڑے لشکر تھے وہ ان دونوں میں سے کسی کی بھی دل شکنی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا سلطان نے کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا اور خاموش رہنے میں مصلحت جانی۔ سلطان کی خاموشی سے سیف الدین کو دلی رنج ہوا ، اس نے اپنے حصے کے لشکر سے کہا کہ ہم اب امین الملک کیساتھ نہیں رہ سکتے ، ہم واپس جائیں گے۔سیف الدین کے اس فیصلے کا علم جب سلطان کو ہوا تو اس نے اسے سمجھایا کہ اگر ہم نے نااتفاقی سے کام لیا تو منگول ہم پر قابو پالیں گے ، ہمارے اتفاق ہی کہ وجہ سے ہم نے منگولوں کو شکستیں دی ہیں۔ سلطان کے سمجھانے پر اس وقت تو سیف الدین خاموش رہا ، لیکن جب رات کو سب سوگئے تو سیف الدین اپنے لشکر کے ہمراہ سلطان جلال الدین کو چھوڑ کر چلا گیا۔ سلطان جلال الدین کو سیف الدین کے یوں چلے جانے کا بڑاملال ہوا۔
مخبروں نے کھولی پول:
چنگیز خان ، جلال الدین سے شکست کھانے کے بعد بڑے غصے اور غضب کی حالت میں تھا اور مناسب موقع کی انتظار میں تھا تاکہ جلال الدین پر حملہ کرکے اپنی شکست کا بدلہ لے۔ اس کے مخبروں نے جب اسے یہ اطلاع دی کہ سلطان کا ایک بہترین سپہ سالار اپنے حصے کے لشکر کیساتھ سلطان سے الگ ہوگیا ہے تو چنگیز خان نے سوچا کہ اسے سلطان جلال الدین پر حملہ کرنے کا اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں مل سکے گا۔ چنانچہ اس نے اپنے پورے لشکر کو جمع کیا اورسلطان کی طرف بڑھا۔ ادھر سلطان جلال الدین کے مخبر بھی اسے چنگیز خان کے بارے میں اطلاعات فراہم کررہے تھے۔ سلطان بھی چنگیز خان سے مقابلہ کرنے کیلئے مناسب جگہ کی تلاش میں تھا وہ چاہتا تھا کہ چنگیز خان کو اب ایسی شکست دے کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کا سامنا نہ کرسکے۔ لیکن سلطان جلال الدین کیلئے دشواری یہ تھی کہ پہلے اس کے پاس ساٹھ ہزار کا لشکر تھا لیکن سیف الدین کی علیحدگی نے مسلمانوں کی طاقت کو نقصان پہنچایا تھا۔ سلطان جلال الدین کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح اپنے لشکر کی اس کمی کو پورا کرے لیکن حالات دن بدن دشوار ہورہے تھے منگول لشکر چاروں طرف سے سلطان کا گھیراوکرتے جارہے تھے۔ سلطان جلال الدین نے چنگیز خان پر آخری ضرب لگانے کیلئے دریائے سندھ کے کنارے پر پہنچ کر ایک بڑے میدان کا انتخاب کیا۔ اس جگہ دریائے سندھ کا بہاوبہت تیزاور پانی اتنا گہرا تھا کہ دریا کو پار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس میدان کا محل وقوع اس طرح سے تھا کہ بائیں جانب بلند پہاڑ تھے اور دائیں طرف سے دریا ئے سندھ پیچھے کی جانب ایک لمباموڑ کاٹتا تھا جس کی وجہ سے اس میدان کا دایاں، بایاں اور پچھلا حصہ محفوظ تھا۔ صرف سامنے کا حصہ کھلا ہوا تھا۔ جلال الدین یہاں اپنے لشکر کیساتھ چنگیز خان سے مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار تھا۔
جنگی حکمت عملی کی چوک:
معرکہ کا دن آپہنچا اور ایک دن صبح سویرے چنگیز خان اپنے پورے لشکر کیساتھ اس میدان کے سامنے سے نمودار ہوا۔ سلطان جلال الدین نے دیکھا کہ چنگیز خان نے اس مرتبہ اپنے لشکر میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں پہلے وہ لشکر کے درمیانی حصے میں رہتا تھا، لیکن اس مرتبہ وہ اپنے لشکر کے پچھلے حصے میں تھا اور اپنے گرد اس نے دس ہزار منگول سپاہی رکھے ہوئے تھے۔ شاید یہ اس نے اس لئے کیا تھا وہ جلال الدین کی دلیری اور شجاعت سے مرعوب ہوچکا تھا وہ جانتا تھا کہ اگر جلال الدین کسی بھی موقع پر جنگ میں کامیاب ہوا تو اس کی گردن ضرورقلم کردے گا۔ جنگ کی ابتداکرنے کیلئے چنگیز خان نے اپنے لشکر کے ایک حصہ کو آگے بڑھایا ، نقارے پر چوٹ پڑی ، علم بلند ہوئے اورفوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوگئیں، سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے اپنے لشکر کے بائیں حصہ کو، امین الملک کی کمان میں آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ مسلمان اور منگول آپس میں ٹکراگئے ، گھمسان کا رن پڑا ،سلطان اور اس کے مجاہدوں نے منگولوں پر اسقدر جان توڑ اور زوردار حملہ کیا کہ منگول فوج کے قدم اکھڑ گئے اور وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے، اس موقع پر چنگیز خان کے بیٹوں کو غیرت آئی اوروہ اپنے لشکر لیکران کی مدد کولپکے۔ امین الملک کا دستہ بھاگنے والے منگولوں کے تعاقب میں تھا، اور یہی انکی غلطی تھی کیونکہ منگول ایک حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹے تھے ، جب سلطان کے سپاہی تعاقب کرتے کرتے منگولوں کے لشکر میں کافی اندر چلے گئے ، تو گھات لگاکر بیٹھے ہوئے منگولوں کے دستوں نے ان پر حملہ کردیا۔جس سے امین الملک کے دستہ میں شامل سپاہیوں کا کافی جانی نقصان ہوا۔ جنگ کا نقشہ پلٹنے لگا اور میدان جنگ کے اس حصے پر منگولوں کا دبا? بڑھنے لگا۔
کیسے ہوئی شکست کی ابتدا؟
چنگیز خان جو اپنی فوج کے درمیان پیچھے کی جانب کھڑا ، اپنی فوج کو لڑوا رہا تھا ،سلطان جلال الدین کی نظراس پر پڑ گئی ۔ اس کی آنکھوں میں غصے اور انتقام سے خون اتر آیاجسے دیکھ کر سلطان جلال الدین نے فیصلہ کرلیا کہ وہ یاتو منگولوں کو نیست نابود کردے گا یا خود اپنے آپ کو موت کے سپرد کردے گا اور اس عزم کیساتھ سلطان نے اپنے تمام لشکر کیساتھ چنگیز خان پر زور دار حملہ کردیا۔ سلطان جلال الدین، چنگیز خان تک پہنچنا چاہتا تھا ، چنگیز خان نے جب یہ دیکھا کہ سلطان منگول سپاہیوں کو کاٹتا ہوا اس پر حملہ آور ہو کر اس کی ہلاک کرنا چاہتا ہے تو وہ ایک تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے لشکر کے پچھلے حصے کی طرف بھاگا۔ حالانکہ سلطان جلال الدین کے لشکر کی تعداد چنگیز خان کے لشکر کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ منگولوں کے لاکھوں کے لشکر کے مقابلے میں سلطان کے پاس صرف تیس ہزار کا لشکر تھا۔ لیکن مسلمان جس سرفروشی اور جوش سے لڑرہے تھے چنگیز خان نے اندازہ لگایا کہ اگر جنگ اسی طرح جاری رہی تو جلال الدین اور اس کا لشکر لاکھوں منگولوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گا اور خود اس کی بھی گرد ن کاٹ دے گا۔لہٰذا چنگیز خان نے اپنے ایک سپہ سالار اور اس کے حصہ کے لشکر کو علیحدہ کیا اور حکم دیا کہ وہ کسی طرح ان اونچی پہاڑیوں کو عبور کرکے نیچے اتر کر سلطان کی پشت پر یا اس کے بائیں جانب سے حملہ آور ہوجائیں ، اس طرح سلطان جلال الدین پر جنگ کے دو محاذ کھل جائیں گے اور وہ اپنے چھوٹے سے لشکر کےساتھ دو محاذوں پر نہیں لڑسکے گا۔ پہاڑ پر چڑھنے والا منگولوں کا یہ لشکر تعداد میں سلطان کے لشکر سے کئی گنا بڑا تھا ، یہ لشکر اونچے پہاڑ پر چڑھ گیا جس میں منگولوں کے بہت سے سپاہی پہاڑ سے نیچے گرکر ہلاک بھی ہوئے ، لیکن یہ لشکر پہاڑکی دوسرے جانب اترنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب سامنے سے چنگیز خان اور اس کے بیٹوں نے اور بائیں جانب سے پہاڑ سے نیچے اترنے والے لشکر نے اپنی پوری قوت سے سلطان جلال الدین پر حملہ کردیا۔ سلطان جلال الدین کو اندازہ تھا کہ اس کے لشکر کی تعداد بہت کم ہے ، منگول جس طرح سے اس پر دو جانب سے حملہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اس کے لشکر کو بہت زیادہ نقصان ہوگا ، اپنے لشکرکواس نقصان سے بچانے کیلئے اس نے بلند آواز سے زوردار تکبیریں کہیںتاکہ چنگیز خان کے لشکر کو پیچھے ہٹا کر اپنے لشکر کو دریائے سندھ کے کنارے کسی محفوظ مقام پرلے جائے۔ سلطان نے وقتی طور پر چنگیز خان کے لشکر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور بھی کردیا تھا ، لیکن جس وقت سلطان پیچھے دریا کی جانب ہٹا ،تو پیچھے سے منگولوں سپاہی سیلاب کی شکل میں اسکے سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے اور سلطان جلال الدین کے لشکر کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچایا۔
مایوسی بنی حرام موت کا ذریعہ:
سلطان پیچھے ہٹتے ہٹتے جب دریائے سندھ کے بلند پہاڑی سلسلے کے اوپر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کے گرد اس وقت محض7 سو مجاہد رہ گئے ہیں۔ اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کو دیکھ کر سلطان پریشان ہوگیا ، وہ سمجھ گیا کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے ، اس نے حسرت بھری نگاہ اپنے تھکے ماندے گھوڑے اور ساتھیوں پر ڈالی، گھوڑے سے اترا اور ایک تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوکر گھوڑے کو ایک اونچے پہاڑ پر لے گیا۔ ایک مرتبہ پھر اس نے حسرت بھری نگاہ اپنے پیچھے اور دائیں بائیں ڈالی اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر بلند پہاڑ کے اوپر سے نیچے موت کی صورت میں بہتے ہوئے دریائے سندھ میں چھلانگ لگادی۔ ابھی چنگیز خان کو یہ خبر نہیں ہوئی تھی کہ سلطان جلال الدین اپنے گھوڑے سمیت دریائے سندھ میں کود چکا ہے۔ جب مسلمان پسپا ہوگئے تو چنگیز خان نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان کا پیچھا کرو اور کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے لیکن سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کو ہر حال میں زندہ گرفتا ر کیا جائے۔ چنگیز خان اپنے بیٹوں اور سپہ سالاروں کیساتھ گھوڑے دوڑاتا جب دریائے سندھ کے کنارے پر پہنچا تو سلطان جلال الدین اس وقت دریا کی موجوں سے لڑتا ہوا دریائے سندھ پار کرنے کی کوشش کررہا تھا۔چنگیز خان بڑی حیرت اور عقیدت کیساتھ سلطان جلال الدین کو دریا کی موجوں سے جہدو جہد کرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس موقع پر چنگیز خان ،سلطان جلال الدین کی بہادری اور جرات مندی کی تعریف کرتے ہوئے بے اختیار پکار اٹھا کہ’ وہ باپ خوش قسمت ہے جس کا بیٹا اتنا بہادر ہو۔‘ سلطان جلال الدین جس کی باقاعدہ کوئی سلطنت اور فوج نہ تھی ، لیکن منگول سپاہی اس سے مقابلہ کرنے سے کتراتے تھے۔ اگر سلطان علاالدین خوارزم شاہ اپنے بہادر بیٹے کی بات مان لیتا اوراپنے لشکر کی کمان جلال الدین کو دے دیتا تو آج تاریخ میں چنگیز خان کا ذکرکہیں نہ ملتا ،اگر ذکر ملتا بھی تو ایک پہاڑی سردارتموجن کا لیکن ہوتا وہی ہے جو قدرت کو منظور ہوتا ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوںکا دبدبہ:
دریائے سندھ کے کنارے چنگیز خان کے خلاف سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کی یہ آخری جنگ تھی۔سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کی بہادری اور جرات مندی چنگیز خان کے دل میں بیٹھ چکی تھی ، اسے اب بھی خدشہ تھا کہ اگر سلطان جلال الدین نے دریائے سندھ کے پار ہندوستان میں دوبارہ مسلمانوں کا لشکر تیار کرلیا تو ایک مرتبہ پھر منگولوں کیلئے جان لیوا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ چنگیز خان کافی عرصے تک دریائے سندھ کے کنارے پر پڑاو ڈالے وہاں رکا رہا اور اس نے اپنے ایک سپہ سالار کی سرکردگی میں بہت بڑا لشکر ہندوستان میں بھیجا جس نے مختلف جگہوں پر سلطان کو تلاش کیا لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔ سلطان جلال الدین کی تلاش میں منگول لاہور اور ملتان پر بھی حملہ آور ہوئے اور یہاںبھی تباہی و بربادی کا کھیل کھیلا، لیکن سلطان جلال الدین اس کے ہاتھ نہ لگا۔چنگیز خان کی سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کو زندہ گرفتا ر کرنے کی حسرت زندگی بھر پوری نہ ہو سکی اور اسکا وہ لشکر جو اس نے جلال الدین خوارزم شاہ کی تلاش میں بھیجا تھا ناکام و نامراد لوٹ آیا۔دریائے سندھ کے کنارے لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ کے بعد چنگیز خان کو اپنا وطن یاد آنے لگا ،چنانچہ اس نے اپنے لشکر کیساتھ واپس اپنے وطن جانے کا ارادہ کرلیا اور اپنی سلطنت کے مرکزی شہر قراقرم کی طرف روانہ ہوگیا، جودنیا کے بلند ترین صحرا گوپی کے پار، تبت کے علاقے سے تقریباََ آٹھ سو میل کے فاصلے پر تھا۔ روانگی سے قبل چنگیز خان نے مفتوح علاقوںمیں اپنے صوبے دار اور گورنر مقرر کئے۔ اب تک کی جنگوں میں لوگوں کا ایک جم غفیر قیدیوں کی شکل میں منگول لشکر کیساتھ ساتھ گھسٹتا پھر رہاتھا۔ اس نے ان قیدیوں سے چھٹکارہ پانے کا ارادہ کرلیا ،اور تمام قیدیوں کوقتل کرنے کا حکم دیدیا۔
منگول تاریخ پر سیاہ داغ:
چنگیز خان کے اس حکم پر خوارزم کے شاہی حرم کی خواتین کے علاوہ ہر مرد و زن کو قتل کردیا گیا۔ ان بدقسمت خواتین کو آخری مرتبہ اپنے وطن کی طرف دیکھنے اور آہ و بکا کا موقع دیا گیا۔ ان مقید خواتین میں سلطان علاالدین خوارزم شاہ کی ماں ترکان خاتون بھی شامل تھی ، اس کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کی تمام خواتین کیساتھ ننگے سر اور ننگے پاوں لشکر کے آگے آگے چلے۔ اور تمام خواتین اپنی تباہی اور بربادی کا ماتم کرتی ہوئی جائیں۔ خوارزم شاہ کی ماں،بیگمات اور بیٹیوں کیساتھ یہ ناروا سلوک منگول تاریخ پر ایک سیاہ داغ ہے۔ بہر حال چنگیز خان جب دریائے سیحوں کے کنارے پہنچا ، یہ وہی جگہ تھی جہاں سے وہ پہلی مرتبہ سلطنت خوارزم میں داخل ہوا تھا۔ دریا کے کنارے پہنچ کر اس نے فتح کا جشن منانے کا حکم دیا اس وقت وہ سلطان علاالدین خوارزم شاہ کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا جو اس نے فتح کے دوران حاصل کیا تھا اور اس وقت اس کے سر پر سلطان علاالدین کا تاج تھا اور اس ہاتھ میں سلطان علا الدین کا عصا تھا۔ چنگیز خان اور اس سپاہی دریائے سیحوں کے کنارے کئی دن تک فتح کا یہ جشن منانے کے بعد اپنے وطن کی طرف روانہ ہوگئے۔
قبر پردیتے رہے پہرہ :
چنگیز خان اب بوڑھا ہوچکا تھامگر پھربھی وہ یہ چاہتا تھا کہ چین کے وہ علاقے جو اب تک اس کے حملوں سے بچ گئے ہیں ان پر حملہ کرکے انھیں بھی اپنی سلطنت میں شامل کرلے لیکن چنگیز خان کو 1227 یا1226کے دوران چین پرتیسرے حملہ کے دوران72سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔ مرنے کے بعد اس کی لاش کو چھکڑے میں لاد کر صحرائے گوپی کے پاراس کے مرکزی شہر قراقرم لایا گیا۔ راستے میں جس جگہ سے چنگیز خان کے لاش گزرتی ان راستوں پر جوبھی قافلہ یا مسافر ملتا اسے قتل کردیا جاتا تاکہ کسی کو یہ خبر نہ ہوسکے کہ چنگیز خان مر گیا ہے۔ چنگیزخان کی لاش جب اس کے مرکزی شہر قراقرم لائی گئی تو اسے دفن کرنے کیلئے صلاح و مشورہ ہوا ، منگولوں کے ایک سردار کو چنگیز خان نے بتادیا تھا کہ جب وہ مرجائے تو اسے شہر کے سب بڑے صنوبر کے درخت کے نیچے دفن کیا جائے۔ یہ درخت بہت اونچا اور بڑا تھا، اس درخت کو دیکھ کر چنگیز خان اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ اس کا سایہ بوڑھے کیلئے بڑے آرام کی جگہ ہے۔ اس درخت کے ارد گرد صنوبر کے اور بھی چھوٹے چھوٹے درخت تھے جنھوں نے ایک طرح سے اس بڑے صنوبر کے درخت کو گھیر رکھا تھا۔ بہرحال صنوبر کے اس درخت کے سائے تلے ایک بہت بڑی قبر کھودی گئی۔ اس کے بعد چنگیز خان کے اس گھوڑے کو ماردیا گیا جس پر اس نے اپنے آخری دنوں میں سواری کی تھی اور اسکی ہڈیاں علیحدہ کرکے ان ہڈیوں کو جلا کر خشک اور صاف کرلیا گیا۔اور اس قبر کے اندر ایک چھوٹا خیمہ نصب کیا گیا جس میںپکا ہوا گوشت ، اناج، ایک کمان، ایک تلوار اور اس کے گھوڑے کی ہڈیاں رکھی گئیں اس کے بعد اس قبر میں چنگیز خان کو دفن کردیا گیا۔ جب تک اس قبر کے ارد گرد چھوٹے درخت نہیں اگ آئے اس وقت تک اس قبیلہ کے لوگ باری باری چنگیز خان کی قبر پر پہرہ دیتے رہے یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا تھا کہ کسی کو اس کی قبر کا پتہ ہی نہ چلے۔بہر حال چنگیز خان جو دشمن کو شکست دے کر ان کے سروں کے مینارتعمیر کرنے کا شوقین تھا اور دشمن کے سروں کی کھوپڑیوں کے پیالے بناکر ان میں شراب پینے کا عادی تھا اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
نسلوں میںکیسے پھیلی ہدایت ؟
چنگیزخان نے مرتے وقت چغتائی خان کو تصیحت کی تھی کہ وہ اپدے اتالیق اور اس کے مشیر اعلی کو اقتدار میں شریک رکھے اور دونوں کے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ قائم کرے۔ چغتائی خان نے اپنی پیٹی کارشتہ قراچار نوئیاں کو دے کر اور علاقوں کا انتظام اس کے حوالے کر کے خود اوکتائی خان کے پاس سکونت اختیار کر لی۔ خغتائی خان کی موت کے بعد وہ خود مختار حکمران ہوگیا تھا۔ مگر اس نے چغتائی کے بیٹیوں کو اقتدار میں شریک رکھا اور تربیت کرتا رہا۔ اس کے بیٹے اور پوتے کو خاقان بنایا۔قراچار نوئیاں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو مختلف علاقوں سے تلاش کرکے سمرقندیاکش کے علاقے میں آباد کیا۔ مقامی ترک اور ایرانی باشندوں میں رہائش اختیار کرکے اس قبیلہ نے اپنی علیحدہ قومیت کھو دی اور ترکی زبان کے غلبے کی وجہ سے ترکی بولنے لگے اور ترک کہلائے۔قراچار نوئیاں نے 89سال عمر پاکر 1254میں وقات پائی۔ اس کا بیٹا ایجل نوئیاں جانشین بنا۔ اس کے پوتے امیراینگو نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا !
ہندوستانی سلطنت مغلیہ کے بانی:
ابو سعید میرزا بن محمد بن میران شاہ بن تیمور 1424 تا 1469 تیموری سلطنت کے ایک حکمران تھے جو موجودہ قازقستان، ازبکستان، ایران اور افغانستان پر مشتمل تھی۔ ابو سعید امیر تیمور کا پڑ پوتا، میران شاہ کا پوتا اور الغ بیگ کا بھتیجا تھا۔ وہ ہندوستان کی سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر کا دادا تھا۔ ابتدا میں ابو سعید نے فوجی لشکر تشکیل دیا لیکن سمرقند و بخارا میں قدم جمانے میں ناکام ہوا اور بالآخر یاسی میں اپنا اڈہ قائم کیا۔ 1450تک ترکستان کا بیشتر علاقہ فتح کر لیا۔ 1451کے دوران اس نے ابو الخیر خان کی زیر قیادت ازبک کی مدد سے سمرقند پر بھی قبضہ کر لیا اس طرح تیموری سلطنت کا تمام مشرقی حصہ اس کے زیر نگیں آ گیا۔ اس نے 1458میں فتح ہرات کے ساتھ ثابت کر دیا کہ وہ وسط ایشیا میں سب سے طاقتور تیموری شہزادہ ہے۔ 1459میں اس نے تین تیموری شہزادوں کی افواج کو ایک جنگ میں شکست دی اور 1461تک مشرقی ایران اور افغانستان کا بیشتر حصہ حاصل کر لیا۔ 1469کے دوران آذربائیجان کے پہاڑوں میں آق قویونلو ترکمانوں کے خلاف ایک مہم کے دوران وہ گرفتار ہو گیا اور اوزون حسن کے ہاتھوں مار دیا گیا۔ ابو سعید صوفیوں سے خاص عقیدت رکھتے تھے جبکہ نقشبندی سلسلہ کے شیخ خواجہ عبید اللہ احرار سے بہت قریبی تعلق رکھتے تھے۔