سری لنکا کو اپنا نیا صدر اور وزیرِاعظم مل گیا ہے لیکن شدید معاشی بحران کے شکار اس ملک کے لیے صرف یہ تبدیلی کافی نہیں ہے۔
سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے کے فرار کے بعد اراکین اسمبلی نے 20 جولائی کو رانیل وکرما سنگھے کو صدر منتخب کیا۔ وکرما سنگھے نے دنیش گناوردینا کو وزیرِاعظم مقرر کیا۔
انہیں ورثے میں ایک ایسی معیشت ملی ہے جس میں 59 فیصد کی ریکارڈ مہنگائی ہے، مارچ 2022ء کے بعد کرنسی کی قدر نصف ہوچکی ہے اور غذائی اشیا اور ایندھن جیسی بنیادی ضروریات کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ ملک میں تقریباً تمام معاشی سرگرمیاں رک چکی ہیں۔
حکومتی خسارہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب حکومت سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں دے سکتی اور مرکزی بینک کے پاس اب غیر ملکی کرنسی تقریباً ختم ہوچکی ہے جو درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے۔
مختصراً یہ کہ سری لنکا جس سخت معاشی بحران کا سامنا کررہا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے نئے حکمرانوں پر فوری حرکت میں آنے اور معاملات کو درست کرنے کے دباؤ ہے۔
ایک ماہرِ معاشیات اور سری لنکا کے مرکزی بینک کا سابق اہلکار ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ آگے کا راستہ بہت دشوار ہوگا۔ معیشت کو دوبارہ درست سمت پر لانے کے لیے ملک کو ماضی کی ان پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا جو معاشی نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس حوالے سے 4 معاشی چیلنجز ایسے ہیں جن پر نئی حکومت کو خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ یہ چیلنجز ایک دوسرے سے متعلق بھی ہیں۔
شہریوں کی فوری ضروریات کو پورا کرنا
اگر سری لنکا کے موجودہ صدر اپنے پیشرو جلاوطن صدر جیسے حال سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں عوام کی فوری ضروریات کو پورا کرنا ہوگا۔
اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی وکرما سنگھے کا کہنا تھا کہ ان کی ترجیح یہ ہوگی کہ عوام 3 وقت کا کھانا کھا سکیں۔
ملک میں غذائی افراطِ زر 76 فیصد ہے اور بنیادی غذائی اشیا تو اس سے کہیں زیادہ مہنگی ہوچکی ہیں۔ چاول کی قیمت 160 فیصد، گندم کی قیمت 200 فیصد اور چینی کی قیمت 164 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ صورتحال کو اس طرح سمجھیے کہ کم از کم تنخواہ پر کام کرنے والے ایک پری اسکول ٹیچر کو ایک کلو چینی اور ایک کلو آٹا یا چاول خریدنے کے لیے اپنی ایک دن کی تنخواہ سے بھی زیادہ رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ اگر اسے خوش قسمتی گیس سلینڈر دستیاب ہوجائے تو اس کے لیے مہینے بھر کی تنخواہ کا نصف سے زائد حصہ ادا کرنا پڑے گا۔
دیگر اہم مسائل میں اخراجات زندگی بھی شامل ہیں۔ بند پڑے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنا بھی ایک ترجیح ہے۔ دوسری فوری ضرورت ذرائع نقل و حمل کو بحال کرنا ہے۔ ایندھن کی قلت کی وجہ سے نجی بس سروسز بند ہورہی ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ مسافر دروازے اور کھڑکیوں سے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ سامان کے ڈبے میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔
ٹرانسپورٹیشن اور بجلی کی فراہمی کو بحال کرنے کے لیے زرِمبادلہ کی ضرورت ہے تاکہ ایندھن درآمد کیا جائے لیکن مشکلات کا شکار معیشتوں کو قرض دینے والے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے امداد ملنے میں ابھی کئی ماہ باقی ہیں۔ جب تک نئے صدر مزید امداد کے لیے خطے کے بڑے ممالک یعنی بھارت اور چین کو قائل نہیں کرتے تب تک معاشی مشکلات جاری رہیں گی اور سری لنکا میں زندگی معمول پر نہیں آئے گی۔
ماضی میں سری لنکا کی معیشت کا انحصار سیاحت پر رہا ہے لیکن اب ایسا ممکن نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ بنیادی ضرورت کی اشیا کی کمی کا مطلب ہے کہ سری لنکا سیاحوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس دوران بیرونِ ملک مقیم سری لنکن شہریوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلاتِ زر میں کمی آئی ہے کیونکہ انہیں سری لنکن کرنسی جسے روپیہ کہتے ہیں پر اعتماد نہیں رہا۔
خود ملک کے نئے صدر بھی یہ بات کہہ چکے ہیں حالات بہتر ہونے سے پہلے شاید مزید سخت ہوں گے۔
متوازن بجٹ
صدر کے لیے دوسری ترجیح بجٹ خسارے کو کم کرنا ہوگی۔ گزشتہ سال کُل اخراجات ملک کے کُل محصولات سے 240 فیصد زیادہ تھے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے 91 فیصد زیادہ رقم درکار تھی۔ نوٹ چھاپنے سے یہ فرق کچھ کم تو ضرور ہوا لیکن اس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔
سری لنکا کے موجودہ بحران کی بنیادی وجہ کئی دہائیوں سے جاری مالی بے ضابطگیاں ہیں جہاں اخراجات بہت زیادہ تھے اور محصولات بہت کم۔
اس مسئلے کے حل کے لیے کئی شعبوں کے بجٹ میں کمی کے ساتھ ساتھ زیادہ ٹیکس بھی لگانے ہوں گے۔ تاہم یہ بجٹ خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ نوٹ چھاپنے کی ضرورت مکمل طور ختم نہیں ہوسکتی۔ بس امید ہی کی جاسکتی ہے ایسا کم سے کم ہو۔
قرضوں کو ری اسٹرکچر کرنا
اس طرح کی بجٹ اصلاحات سری لنکا کو درپیش غیر ملکی قرضوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بھی ضروری ہوں گی۔
گزشتہ دہائیوں کے دوران سری لنکا پر تقریباً 51 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھ چکا ہے اور اس کے پاس قرضے کی ادائیگی کے لیے زرِمبادلہ بھی نہیں ہے۔ حکومت نے اپریل کے مہینے میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی روک دی تھی جس سے ملک ڈیفالٹ کرگیا تھا۔
سال 2021ء تک سری لنکا کا 45 فیصد قرض وہ تھا جو نجی سرمایہ کاروں سے لیا گیا تھا جبکہ باقی دیگر ممالک اور ملٹی نیشنل اداروں سے لیا گیا تھا۔ اس میں سب سے بڑا حصہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا ہے جو 16 فیصد ہے جبکہ جاپان، چین اور ورلڈ بینک کا حصہ 10، 10 فیصد ہے۔
اگر سری لنکا کو اس بحران سے نکلنا ہے تو اسے آئی ایم ایف کی جانب سے خاطر خواہ مدد درکار ہوگی لیکن آئی ایم ایف بھی قرضہ دینے سے قبل اس بات کی یقین دہانی مانگے کا کہ سری لنکا کے قرضوں کی صورتحال مستحکم ہو۔
ورلڈ بینک جیسے غیر ملکی ادارے بھی اس وقت سری لنکا کو قرض نہیں دیں گے جب تک وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں کرلیتا۔ امریکی قانون سازوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی مدد سری لنکا کے مرکزی بینک کی خود مختاری میں اضافے، بدعنوانی سے لڑنے اور قانون کی حکمرانی کو بہتر بنانے پر منحصر ہوگی۔
اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ جاپان سمیت جی 7 ممالک قرضے ری اسٹرکچر کرنے کی کوشش میں سری لنکا کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن کیریبئین کے ہیملٹن ریزرو بینک جیسے کچھ بانڈ ہولڈرز نے اپنے واجبات کے لیے قانونی چارہ جوئی شروع کردی ہے۔ اس بینک کے پاس تقریباً 25 کروڑ ڈالر کے بانڈ ہیں۔
مئی میں سری لنکا نے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے پہلا قدم اٹھا لیا ہے لیکن اسے یقینی بنانے کے لیے سری لنکا کو اپنے قرض دہندگان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرنے ہوں گے۔
اصلاحات کے لیے عوامی حمایت
صدر وکرما سنگھے کا سب سے بڑا چیلنج معیشت کو ٹھیک کرنے سے زیادہ معیشت پر ہونے والی سیاست کو ٹھیک کرنا ہے۔
وہ سری لنکا کی معیشت کے بارے میں اس وقت تک کچھ نہیں کرسکیں گے جب تک کہ وہ سیاسی استحکام لانے میں کامیاب نہیں ہوجاتے اور فی الحال سری لنکا انتشار کا شکار ہے۔
وکرما سنگھے اس سے قبل معزول صدر کے مقرر کردہ وزیرِاعظم کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اگر وہ سری لنکا کی پالیسیوں کو یکسر تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں حزبِ اختلاف کے وسیع مینڈیٹ اور حمایت کی ضرورت ہوگی۔ انتخاب کے بعد انہوں نے فوری طور پر اپنے حریفوں پر زور دیا کہ وہ ان کے ساتھ شامل ہوں اور ’ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے مل کر کام کریں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے اختلافات اب ختم ہوچکے ہیں‘۔
انہیں بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو اختیارات کو کم کرنے سے متعلق مظاہرین کے مطالبات کو بھی پورا کرنا ہوگا۔
اس کے باوجود بہت سے لوگ وکرما سنگھے کی سری لنکا کو متحد کرنے کی صلاحیت پر شک کرتے ہیں اور مدتِ صدارت پوری کرنے کے لیے ان کے مینڈیٹ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ صدر منتخب ہونے کے بعد سے وہ مظاہرین کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور وکرما سنگھے کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد فوج اور مظاہرین کے درمیان تصادم کوئی اچھا اشارہ نہیں ہے۔
شدید بحران میں گھری ہوئی سری لنکن معیشت کو بہتر کرنے میں وقت لگے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ سری لنکا میں مہنگائی ابھی عروج پر نہیں پہنچی ہے اور لوگ مزید کچھ عرصے تک معاشی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے۔
سری لنکا کو اس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہوگی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف جن مالی اصلاحات کی امید کررہا ہے وہ بھی تکلیف دہ ہوں گی اور وہ عوام اور پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی حمایت کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتیں۔