نئی دہلی، 20 اگست (یو این آئی) کانگریس نے آج کہا کہ حکومت کی جانب سے بینکوں کی نجکاری سے پبلک سیکٹر کے بینکوں کی تعداد 27 سے کم ہوکر محض 12 رہ گئی ہے اور ریزرو بینک نے بھی اس کے اس اقدام پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کانگریس کی ترجمان سپریہ سرینیٹ نے ہفتہ کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ریزرو بینک نے اگست کے بلیٹن میں بینکوں کی نجکاری پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک کو بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ریزرو بینک نے حکومت کے دباؤ میں اس ریسرچ رپورٹ سے یہ کہتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کی کہ اس نے بینکوں کی نجکاری پر رپورٹ تیار نہیں کی، جب کہ یہ رپورٹ خود ریزرو بینک کے محققین نے تیار کی ہے۔
محترمہ سرینیٹ نے کہا کہ یہ اور بھی تشویشناک ہے کہ ریزرو بینک کو حکومت کے دباؤ میں یو ٹرن لینا پڑرہا ہے۔ ان کاکہناتھا کہ جب نوٹ بندی ہوئی تب بھی حکومت نے ریزرو بینک کامشورہ نہیں مانا اوراس کا خمیازہ ملک کو بگھتناپڑا اور آج پھر اسی طرح کی صورت حال پیداہوگئی ہے اور ریزرو بینک پرخاموش رہنے کا دباؤ ڈال کر بینکوں کی نجکاری کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر کے بینک 27 سے گھٹ کر 12 پر آ گئے ہیں جبکہ سرکاری بینکوں نے ملک کے آخری شخص تک اپنی خدمات فراہم کیں۔ کسانوں، مزدوروں، خواتین، کارکنان تک سرکاری بینکوں نے ہی بینکنگ سسٹم پہنچایا ہے۔ اس تناظر میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر میں کچھ لوگوں کی اجارہ داری تھی، جسے انہوں نے توڑ کر عام لوگوں تک بینکنگ کی سہولیات پہنچائیں۔
ترجمان نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جو ریزرو بینک کہتا تھا کہ آزادی کے بعد بینکوں کو قومیایا جانا ایک بڑا واقعہ اور بڑا فیصلہ تھا، وہی ریزرو بینک آج حکومت کے دباؤ میں اپنی ریسرچ سے کنارہ کشی اختیار کرکے حکومت کے فیصلے کا خاموش حامی بن رہا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ریزرو بینک کی یہی رپورٹ کہتی ہے کہ اگر مالیاتی بحران کے وقت سرکاری بینک نہ ہوتے توملک کی اقتصادی حالت پر بہت منفی اثر پڑتا۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ بینکوں کی نجکاری کے تعلق سے اپنے ارادے کا وائٹ پیپر لائے اور اسے ریزرو بینک جیسے اداروں پر دباؤ ڈالنا بند کرناچاہیے۔ ان کا کہناتھا کہ اگر دباؤ نہیں ہوتا تو آر بی آئی کو اپنی رپورٹ سے پیچھے نہیں ہٹنا پڑتا۔ اس کے ساتھ انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ اس کو نجکاری کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرناچاہیے اوراس پر ایک وائٹ پیپر لاناچاہیے۔