افغانستان کے حکمران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی لاش طالبان کو نہیں ملی جبکہ امریکا نے گزشتہ ماہ دعویٰ کیا تھا کہ القاعدہ سربراہ کو ڈرون حملے میں مارا گیا ہے۔
غیرملکی خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے گزشتہ مہینے کہا تھا کہ القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کابل میں اپنے خفیہ گھر کی بالکونی میں کھڑے تھے کہ امریکی ڈورن میزائل نے انہیں نشانہ بنا کر ہلاک کیا جو کہ اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کے لیے بڑا دھچکا ہے جس کو ایک دہائی قبل امریکی نیوی سیلز نے ڈرون حملے میں ہلاک کیا تھا۔
کابل میں ایمن الظواہری کی ہلاکت کے دعوے کے بعد افغان طالبان پر سوالات اٹھائے جانے لگے تھے کہ آیا القاعدہ سربراہ کو طالبان نے پناہ دی تھی حالانکہ انہوں نے افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا پر امریکا کو 2020 کے معاہدے کے تحت یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ کسی بھی مسلح گروپس کو پناہ نہیں دیں گے۔
خیال رہے کہ ایمن الظواہری کا تعلق مصر سے تھا جو پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر تھے اور مبینہ طور پر امریکا میں 11 ستمبر 2001 میں ہونے والے حملوں میں قریبی طور پر ملوث تھے جس کے بعد وہ دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک امریکی عہدیدار نے بتایا تھا کہ امریکا نے 31 جولائی کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ڈرون میزائل کی کارروائی کی تھی۔
ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’اب انصاف کی تکمیل ہو چکی، اور دہشت گردوں کا سربراہ اب نہیں رہا اور ہم نے شکست تسلیم نہیں کی‘۔
سینئر امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ ایمن الظواہری کی تلاش دہشت گردی کے خلاف مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ امریکا نے رواں سال اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ایمن الظواہری کی اہلیہ، بیٹی اور دیگر بچوں نے کابل میں کسی محفوظ مقام پر پناہ لی ہے اور بعدازاں یہ بھی نشاندہی کی تھی کہ ایمن الظواہری بھی وہاں موجود ہیں۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ جب ایمن الظواہری وہاں پہنچے تو ہمیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ آیا کہ وہ محفوظ گھر سے واپس جائیں گے مگر کافی مرتبہ اپنے گھر کی بالکونی میں ان کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں آخرکار وہ مارے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے مسلسل ویڈیوز فراہم کیا کرتے تھے اور ممکنہ طور پر ان کی ہلاکت کے بعد وہ ویڈیوز جاری کی جائیں۔
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ افغان طالبان نے ایمن الظواہری کو پناہ دے کر طے پائے گئے معاہدے کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی ہے۔
دی ریوارڈ فار جسٹس کے مطابق 12 اکتوبر 2000 کو یمن میں یو ایس ایس کول بحری جہاز پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 17 امریکی فوجی ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوئے تھے، جس میں القاعدہ کے دیگر اراکین کے ساتھ ساتھ ایمن الظواہری بھی ملوث تھے۔
ایمن الظواہری پر کینیا اور تنزانیہ کے سفارت خانوں پر بم حملہ کرنے کے جرم میں امریکا میں 7 اگست 1998 کو فرد جرم عائد کیا گیا تھا، ان حملوں میں 224 لوگ جاں بحق اور 5 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
امریکا میں 11 ستمبر کے حملے کے بعد جب امریکی فوج نے 2001 میں افغان طالبان کی حکومت پر قبضہ کیا تو القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری وہاں سے بچ نکلے تھے۔