پاکستان میں سیلاب اور اس کی تبا کاریوں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’پاکستان میں مہنگائی 27 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، بارش اور سیلاب کے باعث پاکستان میں ہونے والی تباہی کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے بیرونی قرضے فوری طور پر معاف کیے جانے چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کی بجائے موسمیاتی بحران کی وجہ سے پاکستان کو معاوضہ ادا کیا جانا چاہیے‘۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے کہا ہے کہ پاکستان اس چیز کی قیمت ادا کررہا ہے جو اس نے کیا ہی نہیں لہٰذا اس کا معاوضہ اسے ملنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ قطبی خطے سے باہر پاکستان کے پاس سب سے زیادہ 7 ہزار 253 گلیشیئرز ہیں اور یہ سب تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں عالمی سطح پر پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن یہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے، پاکستان ہماری لالچ کی قیمت چُکا رہا ہے۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹس میں لکھا کہ ’ایک المیہ واضح ہو رہا ہے، پاکستان عالمی سطح پر گیسوں کے اخراج کا ایک فیصد ذمہ دار ہے مگر یہ بالکل غلط ہے کہ اسے موسمیاتی تبدیلیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے‘۔
کلاڈیا ویب نے کہا کہ ’امیر ممالک نے موسمیاتی بحران کو جنم دیا اور اب انہیں اس کا معاوضہ ادا کرنا چاہیے، پاکستان کو فوری طور پر بین الاقوامی مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’عالمی سطح پر گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد ہے، دنیا کے دیگر ممالک کے حصے کے مقابلے میں ایک فیصد امیر ترین ممالک ان گیسوں کے اخراج کے 50 فیصد زیادہ ذمہ دار ہیں۔
کلاڈیا ویب نے مزید لکھا کہ ’ایسے وقت میں مغربی سیاسی رہنماؤں کی خاموشی ایک اخلاقی جرم ہے جب پاکستان سیلاب سے دوچار ہے، یہ وقت پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کے امیر ممالک پاکستان جیسے ممالک میں پیدا ہونے والے موسمیاتی بحران کی قیمت ادا کریں، ہمیں اب ان کی دولت پر عالمی ٹیکس کی ضرورت ہے‘۔
کلاڈیا ویب نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب کی چند ویڈیوز بھی شیئر کیں۔
دریں اثنا اسکائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بروقت کارروائی نہ کی گئی تو آئندہ 80 برسوں میں گرم موسم کے ایام کی تعداد ایک سال میں 180 روز تک بڑھ جائے گی اور یہ تباہ کن ہو گا جو پانی کی فراہمی کے مسائل کے ساتھ ساتھ خشک سالی اور فصلوں کی تباہی کا باعث بنے گا۔
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن بھی اس امر کی بارہا نشاندہی کرتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ قطبی خطے سے باہر گلیشیئرز کی سب سے زیادہ تعداد ہمارے پاس ہے لیکن قدرت کے اس عظیم مظہر کو برقرار رکھنے کی بجائے ہم انہیں پگھلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
غیر منافع بخش گروپ ’جرمن واچ‘ کی جانب سے شائع کردہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔
سائنسدانوں نے تاحال اس بات کا تعین نہیں کیا کہ موسمیاتی تبدیلی سیلاب میں کیا کردار ادا کرتی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ اس کے سبب تپش کے بڑھنے سے پاکستان کو خطرہ لاحق ہے، صرف سیلاب نہیں بلکہ گرمی، خشک سالی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے اس کی علامات واضح ہیں۔