کتاب لکھنا ایک مشکل کام ہے لیکن ٹیکنالوجی اسے آسان بنا سکتی ہے
مشہور امریکی مصنف مارک ٹوئین کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ کوئی شخص ناول لکھنا سیکھ سکتا ہے۔
وہ کہتے تھے کہ کوئی ایسا شخص جس میں پیدائشی طور پر ناول نگار بننے کی صلاحیت موجود نہیں اگر وہ ناول لکھنے کی کوشش کرے گا تو اسے بہت مشکلات پیش آئیں گی۔ ‘اس کے پاس کہانی کا کوئی واضح خیال نہیں ہے۔ درحقیقت اس کے پاس کوئی کہانی ہی نہیں ہے۔’
برطانوی مصنف سٹیون فرائی، مارک ٹوئین کی بات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘کامیاب مصنف وہ ہوتے ہیں جنھیں یہ معلوم ہو کہ کتاب لکھنا کتنا مشکل ہے۔’
یونیسکو کے مطابق ہر سال دنیا میں 22 لاکھ کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ ان میں افسانوی اور غیر افسانوی کتابیں دونوں شامل ہیں۔
بہت سے مصنفوں کے لیے آج بھی کتاب لکھنے کا طریقہ کم و بیش وہی ہے جو انیسویں صدی میں مارک ٹوئین کے زمانے میں تھا۔ پہلے کتاب کا خیال، پلاٹ، کرداروں کو لکھ لیا جاتا ہے اور پھر انھیں بڑھایا اور سنوارا جاتا ہے۔
لیکن اب ٹیکنالوجی مصنفوں کی زندگی کو آسان بناتی جا رہی ہے۔
ڈیٹا سائنٹسٹ مائیکل گرین کو کتاب لکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا خیال اپنی کتاب لکھنے کے دوران آیا۔
Michael Greenمائیکل گرین نے کتاب لکھنے کے لیے لینیٹ (Lynit) نامی ڈیجیٹل پلیٹ فارم تیار کیا ہے جو مصنفین کی مدد کر سکتا ہے
مائیکل گرین کہتے ہیں: ‘پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک پیچیدہ کہانی کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔ جب میں اپنی کتاب کو ایڈٹ کر رہا تھا تو مجھے لگا کہ میرے پاس تو بہت سارے پلاٹ اور کردار ہیں۔’
‘میں زندگی کے جن پہلوؤں کو تخلیق کر رہا تھا اس کے حوالے سے میرے پاس دستاویزات موجود تھیں۔ میں پریشان تھا کہ میں ان سب کو اپنی کتاب میں کیسے سمو پاؤں گا۔ تب مجھے اس پیچیدہ کام کے لیے ڈیٹا سائنس کے طریقے استعمال کرنے کا خیال آیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسٹر گرین نے لینیٹ (Lynit) نامی ایک ایسا ڈیجیٹل پلیٹ فارم تیار کر لیا ہے جس میں مصنف کتاب کے مختلف پہلوؤں، یعنی کہانی، کرداروں، موضوعات اور اہم واقعات کو ایک کہانی کی لڑی میں پرو سکتے ہیں۔
یہ ایپ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور مختلف مصنف اسے ٹیسٹ کر رہے ہیں۔ ابھی اس کا استعمال بالکل مفت ہے۔ مصنف اس ایپ کے ذریعے اپنی کتاب کے مختلف پہلوؤں کو اپ ڈیٹ کر سکتے ہیں۔
Lynitمصنفین لینیٹ کو استعمال کر کے اپنے کام کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں
مسٹر گرین کہتے ہیں کہ ناول نگاروں کی اکثریت جب لکھنا شروع کرتی ہے تو ان کے ذہن میں ناول کے پلاٹ اور کسی خاص کردار کا ایک خاکہ موجود ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لینیٹ (Lynit) کے ذریعے مصنف کے لیے آسانی پیدا کر دی گئی ہے کہ وہ اپنی کتاب کے پلاٹ اور کرداروں میں قطع و برید کر سکیں۔
‘جب مصنف کے ذہن میں کوئی نیا خیال آتا ہےجسے وہ اپنی تصنیف میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس ایپ کے ذریعے نئے خیال کو مرکزی تصور کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔’
کتاب کے شائع ہونے کے بعد بھی مصنف ٹیکنالوجی کی مدد سے پڑھنے والوں کے ساتھ جڑ سکتا ہے۔
اگر آج مارک ٹوئین زندہ ہوتے تو وہ کبھی نہ تسلیم کرتے کہ کوئی شخص ٹیکنالوجی کی مدد سے ناول نگار بن سکتا ہے
اس کا ایک طریقہ تو سوشل میڈیا ہے جس کے ذریعے مداحوں سے تعلق قائم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لکھاری ہائی ٹائیڈ (Hiitide) جیسی سپیشلسٹ فرم کی ایپس کے ذریعے اپنے مداحوں کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔
اس فرم کی ویب سائٹ اور ایپ قارئین کو کچھ ادائیگی کے عوض اپنے پسندیدہ مصنف سے براہ راست سوال و جواب کا سیشن کروانے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس سے ایسے مصنف جن کی کتاب لوگوں کو کچھ سکھانے سے متعلق ہے، وہ اس ایپ کے ذریعے لوگوں کی ڈیمانڈ پر ان کے مطلب کی چیز سکھا کر پیسہ بھی کما سکتے ہیں۔
ہائی ٹائیڈ کمپنی کے مالک ایون شائے کہتے ہیں کہ ان کے کورسز کتاب کی ‘ورک بکس’ ہیں۔
ایون شائے کہتے ہیں ‘مثال کے طور پر رائن ہالیڈے اپنی کتاب ‘دی آبسٹیکل از دا وے: دی ٹائم لیس آرٹ آف ٹرننگ ٹرائیلز ان ٹرائمف’ (The Obstacle is the Way: The Timeless Art of Turning Trials into Triumph) میں ساری دانائی خوشی و غمی کے جذبے سے بے نیازی کے یونانی فلسفہ رواقیت سے حاصل کرتے ہیں۔
صارفین ہائی ٹائیڈ کورس سے نہ صرف رواقیت کے بارے میں سیکھتے ہیں بلکہ اگر وہ رواقیت کے کسی خاص پہلو کے بارے میں سیکھنا چاہتے ہیں تو وہ اس کے لیے مصنف رائن ہالیڈے سے خصوصی سیشن بھی کر سکتے ہیں۔
Evan Shyایون شائے کہتے ہیں کہ ہائی ٹائیڈ ایپ مصنفین کو پیسہ بنانے میں مدد کر سکتی ہے
کیلیفورنیا کی ایک اور فرم ‘کریزی میپل سٹوڈیو’ کا کہنا ہے کہ وہ کتاب میں زندگی بھر سکتے ہیں۔
کریزی میپل سٹوڈیوز کی چار ایپس ‘چیپٹرز، سکریم، سپاٹ لائٹ اور کِس’ کتاب میں صوتی اثرات، میوزک اور کرداروں میں جان بھر سکتی ہیں۔
کریزی میپل سٹوڈیوز فرم کے بانی جوئی جیا کہتے ہیں کہ ای ریڈرز اور ڈیجیٹل انقلاب نے اشاعت کی صنعت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ‘اس نے گیٹ کیپر یا ایڈیٹر کے کردار کو کم کر دیا ہے لیکن ابھی وہ بہت دور نہیں گیا ہے۔’
جوئی جیا کے مطابق ایسی دنیا میں جہاں ممکنہ قارئین کے پاس بہت سے آپشنز موجود ہیں کہ وہ اپنا وقت کیسے صرف کرنا چاہتے ہیں، مصنف اپنے مقام کو برقرار رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
البتہ ماہرین ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔
Crazy Maple Studiosکریزی میپل سٹوڈیو کتابوں کو گرافک ناولوں میں بدل سکتا ہے
ملیسا ہیومین ایک رائٹر کوچ اور گھوسٹ رائٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ سوشل میڈیا کے بہت قریب ہیں تو ٹیکنالوجی بھٹکنے کا ذریعہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
‘کئی بار پانچ تخلیقی منٹ لکھنے کی کوشش میں ضائع کیے گئے گھنٹوں کی کمی پوری کر دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال پر میرا ایک مشورہ ہے کہ اپنے لیے ایسا کام ڈھونڈیں جو آپ کی شخصیت اور آپ کے تحریری سٹائل سے مطابقت رکھتا ہو اور پھر اسے استعمال کریں۔’
ملیسا ہیومین کہتی ہیں: ‘کئی بار مصنف ہر چیز کو استعمال کرنے کی غلطی کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو کام کرے گی، جو ان کے لیے اپنی راہ سے بھٹکنے کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔’
البتہ مائیکل گرین کے خیال میں جب ٹیکنالوجی سے رغبت رکھنے والے نئے مصنف زیادہ نمایاں ہوں گے تو ٹیکنالوجی کا استعمال اور بڑھ جائے گا۔
‘میں نئی نسل کے مصنفین میں دیکھ رہا ہوں کہ رہنمائی کے لیے ٹیکنالوجی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ ٹیکنالوجی کو ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے وہ سیکھ کر اس کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔’