اگر کسی جائز ضرورت کے تحت سروے کرایا جاتا ہے تو صرف مدارس کی تخصیص نہ ہو، تمام قوموں کے مذہبی اور غیر مذہبی اداروں کا ایک مقررہ اصول کے تحت سروے کیا جائے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا ہے کہ بعض ریاستی حکومتوں کی جانب سے دینی مدارس کے سروے کا جو شوشہ چھوڑا گیا ہے، وہ در اصل مدارس کو بدنام کرنے اور برادران وطن کے در میان انہیں مشکوک ومشتبہ بنانے کی ایک گھناؤنی اور ناپاک سازش ہے۔یہ الزام اس نے جاری ایک ریلیز میں لگایا ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈکے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ دینی مدارس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے، جہاں کردار سازی اور اخلاقی تربیت کا چوبیس گھنٹہ اہتمام کیا جاتا ہے، ان مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والوں نے کبھی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی کوئی کام نہیں کیا، اگرچہ بعض دفعہ حکومت نے اس طرح کے الزامات لگائے،مگر چوں کہ یہ جھوٹا الزام تھا اس لئے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
برسراقتدار پارٹی کے سینئراور با اثر لیڈر ایل کے اڈوانی جب ملک کے وزیر داخلہ تھے، اس وقت انھوں نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا، ڈاکٹر راجندر پرشاد، جواہر لال نہرو، اے پی جے عبدالکلام اور مولانا آزاد جیسے ملک کے قد آور قائدین نے مدارس کی خدمات کا اعتراف کیا ہے، جنگ آزادی میں مدارس سے نکلنے والے علماء نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں اور آزادی کے بعد بھی ملک کے انتہائی غریب طبقہ کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں ان اداروں کا نمایاں کردار رہا ہے، اس لئے بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اس ارادہ سے باز آئے اور اگر کسی جائز ضرورت کے تحت سروے کرایا جاتا ہے تو صرف مدارس یا مسلم اداروں کی تخصیص نہ ہو، تمام قوموں کے مذہبی اور غیر مذہبی اداروں کا ایک مقررہ اصول کے تحت سروے کیا جائے؛ بلکہ اس میں سرکاری اداروں کو بھی شامل رکھا جائے کہ حکومت نے تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر کے سلسلہ میں جوضابطہ مقرر کیا ہے، خود سرکاری ادارے اسے کس حد تک پورا کر رہے ہیں، مولانا رحمانی نے کہا کہ صرف دینی مدارس کا سروے مسلمانوں کو رسوا کرنے کی کوشش ہے اور قطعاً ناقابل قبول ہے اور پوری ملت اسلامیہ اس کومسترد کرتی ہے۔