الہ آباد یونیورسٹی میں گزشتہ کئی دنوں سے ہنگامہ برپا ہے۔ یہاں طلباء گزشتہ 20 دنوں سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
لیکن اس ہنگامہ نے اتوار کو اچانک اس وقت طول پکر لیا جب طلبہ یونین کی عمارت میں احتجاج کے دوران ایک طالب علم نے پولیس پر اپنے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے خود پر پٹرول چھڑک کر خود کو جلانے کی کوشش کی۔
اس دوران افراتفری مچ گئی اور پولیس نے کسی طرح اس طالب علم کو روک لیا۔
آرمی چیف کی تقرری کو ایشو بنانے کے خلاف عمران کو وارننگ
خود کو جلانے کی کوشش کرنے والے طالب علم آدرش بھدوریا نے الزام لگایا ہے کہ جب سے وہ فیس میں اضافے کے خلاف احتجاج کا حصہ بنے ہیں تب سے پولیس ان کے گاؤں جا رہی ہے اور ان کے خاندان کے افراد کو پریشان کر رہی ہے۔ طالب علم نے کہا کہ پولیس والوں نے اس کے گھر والوں کو دھمکی دی ہے کہ اسے احتجاج سے گھر واپس بلایا جائے ورنہ وہ سب کو جیل میں ڈال دیں گے۔ احتجاج کے دوران طلباء اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپ بھی ہوئی جس کے دوران کئی طلباء کی طبیعت بھی خراب ہوگئی۔
نیوز پورٹل اے بی پی میں شائع خبر کے مطابق اس پورے معاملے پر ایس پی سٹی سنتوش کمار مینا کا کہنا ہے کہ طلبہ کا احتجاج پرامن طور پر شروع ہوا لیکن کچھ دیر بعد ہی یہ تمام لوگ امن کو خراب کرنے لگے جس کے بعد خبر ملی کہ وہ خود سوزی کر لیں گے۔ جس کے بعد ایک نوجوان نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی جسے پولیس اہلکاروں نے بچا لیا۔ طلبہ نے احتجاج کی اجازت نہیں لی تھی۔
یہ ہنگامہ 31 اگست کو یونیورسٹی کے ایک فیصلے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ جس میں طلباء سے وصول کی جانے والی فیس میں 400 فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر طلبہ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ طلباء نے پہلے فیس میں کئے گئے اضافہ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا لیکن جب ان کی بات نہ سنی گئی تو انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ اس مرکزی یونیورسٹی میں عموماً کسانوں اور کم آمدنی والے گھرانوں کے بچے ہی پڑھنے آتے ہیں۔ فیس میں بیک وقت چار سو گنا اضافہ جائز نہیں ہے۔ اگر یونیورسٹی کے سامنے کوئی مالی مسئلہ ہے تو اسے اپنے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا چاہیے۔ طلبہ سے مکمل وصولی کرنا درست نہیں ہے۔ اگر یونیورسٹی نے فیس میں اضافہ کرنا تھا تو اس میں تھوڑا سا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔
دوسری جانب یونیورسٹی فیس میں اضافے کے پیچھے اپنی ہی دلیل دے رہی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت طلبہ سے وہی ٹیوشن فیس وصول کی جا رہی ہے جو 1922 میں یعنی سو سال پہلے لی گئی تھی۔ ٹیوشن فیس میں پورے سو سال بعد اضافہ کیا گیا ہے۔ یہاں کے طلباء آج بھی تقریباً دس روپے روزانہ خرچ کرکے پورا سال روایتی کورس پڑھ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کا استدلال ہے کہ فیس میں اضافہ کا فی الحال تقریباً 36,000 طلباء پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بڑھی ہوئی فیس نئے سیشن سے ہی وصول کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی نے دیگر مرکزی یونیورسٹیوں کی فیس کے مقابلے میں سب سے کم فیس ہے۔
یوپی کے سہارنپور میں شرمناک واقعہ! کھلاڑیوں کو بیت الخلا میں رکھا ہوا کھانا دیا گیا، کھیل افسر معطل
فیس میں اضافے کے بعد اب گریجویٹ طلباء کو 975 روپے کی بجائے 3901 روپے سالانہ ادا کرنا ہوں گے۔ پریکٹیکل کی فیس 145 روپے سے بڑھا کر 250 روپے کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ایم ایس سی کی فیس 1561 روپے سے بڑھا کر 4901 کر دی گئی ہے۔ ایم ایس سی کی فیس 1861 سے بڑھا کر 5401، ایم کام 1561 سے بڑھا کر 4901، تین سالہ ایل ایل بی کی فیس 1275 سے بڑھا کر 4651، ایل ایل ایم کی فیس 1561 سے بڑھاکر 4901 اور پی ایچ ڈی کی سالانہ فیس 501 سے بڑھا کر 15300 روپے سالانہ کر دی گئی ہے۔