ایران کے معروف مذہبی رہنما نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ‘لوگوں کے مطالبات سنیں’ جبکہ نوجوان خاتون کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد سے مظاہرے جاری ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی ‘ کے مطابق منسہا امینی کی حراست میں ہلاکت کو 10 روز ہو گئے ہیں اور عوام تاحال دارالحکومت تہران سمیت ایران کے اہم شہروں میں مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں۔
ایران میں اس وقت عوامی سطح پر مظاہرے شروع ہوئے تھے جب گزشتہ ہفتے ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر موزوں لباس پہننے پر گرفتار کی گئی 22 سالہ خاتون مہسا امینی دوران حراست انتقال کر گئی تھیں۔
آیت اللہ العظمی حسین نوری ہمدانی نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا کہ حکمرانوں کو عوام کے مطالبات لازمی سننا چاہیے اور ان کے حقوق پر حساسیت دکھا کر مسائل حل کرنے چاہئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 97 سالہ بااثر مذہبی رہنما ملک کی قدامت پسند اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ منسلک رہے اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی متعدد مواقع پر بھرپور حمایت کی ، جس میں 2009 میں سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب پر حمایت قابل ذکر ہے۔
آیت اللہ العظمی حسین نوری ہمدانی کا کہنا تھا کہ عوام کے حقوق اور پبلک پراپرٹی پر حملہ کرنا قابل مذمت ہے۔
سرکاری اعداد و شما کے مطابق 16 ستمبر سے جاری مظاہروں میں اب تک کم از کم 41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر مظاہرین ہیں تاہم چند سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق مظاہرے متعدد شہروں میں پھیل چکے ہیں جہاں حکام کے خلاف نعرے بازی کی جا رہی ہے۔
ملک بھر میں زیادہ تر رات کے وقت ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک ہزار 200 سے زیادہ مظاہرین، اصلاح پسند کارکنان اور صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اصلاح پسندوں کے قریب سمجھے جانے والے آیت اللہ اسد اللہ بیات نے 18 ستمبر کو مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ منسہا امینی کی موت کے ‘افسوس ناک واقعے’ کے پیچھے ‘غیر قانونی’ اقدامات تھے۔