افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بم دھماکے کے بعد ایک ہسپتال کے باہر لوگ اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے کھڑے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تعلیمی ادارے پر خودکش حملے میں کم از کم 19 افراد جاں بحق اور دو درجن سے زائد زخمی ہو گئے۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق حملہ کابل کے مغربی علاقے دشت برچی میں ہوا۔
پولیس ترجمان خالد زدران نے کہا کہ طلبہ امتحانات کی تیاری کر رہے تھے کہ خودکش بمبار نے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 19 افراد جاں بحق اور 37 زخمی ہوگئے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع ٹکور نے اس سے قبل ٹوئٹ کی تھی کہ سیکیورٹی ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچ چکی ہیں، جبکہ دھماکے کی نوعیت اور ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں بعد میں بتایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ شہریوں پر حملہ دشمن کے بہیمانہ ظلم اور اخلاقی معیار کی پستی کو ثابت کرتا ہے۔
گزشتہ سال طالبان کی اقتدار میں واپسی سے افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوا تھا اور تشدد میں نمایاں کمی آئی تھی، لیکن نئے حکمرانوں کے دور میں حالیہ مہینوں میں سیکیورٹی صورتحال ابتر ہونا شروع ہوگئی ہے۔
افغانستان کے ہزارہ برادری کو کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کا سامنا ہے اور انہوں نے 1996 سے 2001 کے دوران طالبان کے پہلے دور حکومت میں ان پر بدسلوکی کا الزام لگایا تھا۔
ان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسی طرح کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
طالبان کی دشمن تنظیم ’داعش‘ کے حملوں کا بھی اکثر ہزارہ برادری ہی نشانہ بنتی ہے اور ان کارروائیوں میں بچوں، خواتین اور اسکولوں تک پر حملوں سے گریز نہیں کیا جاتا۔
پچھلے سال طالبان کی اقتدار میں واپسی سے قبل دشت برچی میں اسکول کے قریب تین بم دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 85 افراد جاں بحق اور 300 کے قریب زخمی ہو گئے تھے، مرنے والوں میں زیادہ تر طالبات تھیں۔
اس حملے کی ذمے داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی تھی لیکن ایک سال قبل داعش نے اسی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں طلبہ سمیت 24 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
مئی 2020 میں شدت پسند تنظیم پر ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ پر مسلح حملے کا الزام لگایا گیا تھا جس میں ماؤں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
افغانستان میں تعلیم ایک اہم مسئلہ ہے، طالبان نے بہت سی لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول میں تعلیم کے لیے جانے سے روک دیا تھا اور انہی کی طرح داعش بھی لڑکیوں کی تعلیم کی مخالف ہے۔