علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ایک لمبا اور بہترین سفر طے کیا ہے۔ اس انجمن میں بے شمار پھول کھلے ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی خوشبو سے معطر کیا ہے۔ اس کے بانی سر سید احمد خان کا یومِ پیدائش ہے، جن کی دور اندیشی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
علی گڑھ تحریک کے پس منظر کو جاننے کے لیے انیسویں صدی کے نصف اوّل کے سیاسی منظرنامہ کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ 1857 سے قبل کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور مذہبی حالات کو بھی بہت بہتر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں مغلیہ سلطنت برائے نام رہ گئی تھی۔ اس دور میں ہندوستان کے اکثر صوبے سرکش جاگیرداروں کے ماتحت تھے جو مغل بادشاہوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا، ان کے لیے ان حالات کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔
1857 کی جنگ آزادی میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست ہوگئی، اور مکمل طور سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ 1857 کی جنگ آزادی سے ہندوستانی مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان سب سے زیادہ ہوا، اس کی وجہ یہ تھی اس جنگ میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انگریزوں کا ماننا تھا کہ ہندوستانی مسلمان ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں، اس جنگ آزادی کے ردِّعمل میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔
سر سید احمد خان نے 1857 کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس نازک دور نے سر سید کو ذہنی کشمکش اور عجیب پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے برطانوی نظر سے مسلمانوں کے خلاف قائم کو دور کرنے کی پیہم کوشش کی اور مسلمانوں کی فوز و فلاح کے لیے مشکل سے مشکل کام کرنے کا عزم مصمم کر لیا اور وہ اپنے اس عظیم مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
سر سید احمد خاں نے علم کے قدیم تصور کو رد کیا اوران کا خیال تھاکہ ایسا علم حاصل کیا جائے جس سے قوم کی ترقی ہو اور معاشی زندگی میں دشواریاں نہ پیش آئیں۔ سر سید مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کے دلوں میں جو نفرت تھی اس کو ختم کرنا چاہتے تھے اس لیے ‘اسباب بغاوت ہند’ لکھی۔ وہ برابر مسلمانوں کو یہ تلقین کرتے رہے کہ وہ انگریزوں کا ساتھ دیں اور علمی میدان میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، ایسا کرنے سے ہی قوم کی معاشی زندگی میں خوش حالی آئے گی۔
سرسید کے مذہبی افکار و نظریات پر اس دور کے دانشوران ادب نے بہت نکتہ چینی کی تھی اور آج بھی ان کی اس مذہبی فکر سے مسلمان اتفاق نہیں کرتے ہیں اور سرسید کے عہد میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اگر سرسید، مذہب اسلام کو عقل کے ترازو میں تولنے کی کوشش نہ کرتے تو اس دور میں ان کی اتنی مخالفت نہ ہوتی۔ ان کے اہم معاصرین حالی، شبلی، نذیر اور وقار ملک وغیرہ نے ان کے اصلاحی کامو ں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے باوجود مذہبی معاملات میں ان کی عقلیت پسندی سے اختلاف کیا۔ سر سید نے مذہبی معاملات کو عقل کے مطابق دیکھنے کی اس لیے کوشش کی تھی کیونکہ مذہب اسلام میں بہت سی نئی چیزیں داخل ہو گئیں تھیں، سر سید ان بدعتوں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
سر سید کے خیال میں تصور اجتماعیت میں دو تصورات آتے ہیں، ایک تصور تعلیم جو انفرادی کے بجائے اجتماعی ہونا چاہیے، وہ کہتے تھے سماج کو ذہنی طور پر آزاد ہونا چاہیے اور اجتماعی طور پر ارتقا کی منازل طے کرنے میں منہمک رہنا چاہیے، سرسید تصور تعلیم کو بہت وسیع معنوں میں لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے انفرادی تعلیم کے بالمقابل ‘قومی تعلیم’ کا تصور پیش کرنے میں تامل نہیں کیا ہے انھوں نے انفرادی کوششوں کو لغو بھی قرار دیا ہے۔ سرسید نے ایک مرتبہ اپنے لکچر میں کہا تھاکہ”تعلیم و تربیت کی مثال کمہار کے آوے کی سی ہے کہ جب تک تمام کچے برتن یہ بہ ترتیب ایک جگہ نہیں چنے جاتے اور ایک قاعدہ داں کمہار کے ہاتھ سے نہیں پکائے جاتے کبھی نہیں پکتے پھر اگر تم چاہو کہ ایک ہانڈی کو آوے میں رکھ کر پکالو ہرگز درستی سے نہیں پک سکتی۔‘‘
علی گڑھ تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی اس تحریک نے اصلاح معاشرہ کی خاطر مغربی تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید نے بہت سی کتابیں اور رسالے شائع کیے تاکہ قوم کی اصلاح ہوسکے انھوں نے ادارے اور انجمنیں قائم کیں تاکہ قوم خواب غفلت سے بیدار ہو۔ سائنٹفک سوسائٹی 1864، برٹش انڈیا ایسوسی ایشن، 1966، کمیٹی برائے تبلیغ و توسیع تعلیم 1870، محمڈن سول سروس فنڈ ایسوسی ایشن، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس 1886، انڈین پیریاٹک ایسوسی ایشن، محمڈن ایسوسی ایشن 1883، ایم اے او ڈیفنس ایسوسی ایشن 1893، محمڈن نیشنل والنسٹرس آف ایم اے او کالج 1888، یہ ایسی انجمنیں اور ادارے ہیں جس کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کی ذہنی و علمی، ادبی اور تہذیبی آبیاری کی جاتی تھی، سرسید کی اس تعلیمی تحریک کے دو رس اثرات مرتب ہوئے۔