معروف امریکی جریدے ‘واشنگٹن پوسٹ’ نے رپورٹ کیا کہ 2016 سے 15 ریٹائرڈ امریکی جنرلز اور ایڈمرلز سعودی وزارت دفاع کے لیے بطور مشیر خدمات سرانجام دے چکے ہیں، یہ اُن 500 سے زائد ریٹائرڈ امریکی فوجی اہلکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے 2015 سے بیرون ملک حکومتوں سے منافع بخش ملازمتیں حاصل کیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان اہلکاروں میں متعدد جرنیل اور ایڈمرلز بھی شامل ہیں، ان کی خدمات حاصل کرنے والوں میں سے زیادہ تر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی جبر کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
سعودی عرب کے تنخواہ دار امریکی مشیروں میں صدر براک اوباما کے قومی سلامتی کے مشیر ریٹائرڈ میرین جنرل جیمز جونز اور ریٹائرڈ آرمی جنرل کیتھ الیگزینڈر شامل ہیں جنہوں نے براک اوباما اور صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی قیادت کی۔
‘واشنگٹن پوسٹ’ نے یہ معلومات ’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘ کے تحت حاصل کی ہیں جو میڈیا کو امریکی حکومت سے ایسی معلومات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
سعودیوں کو بطور مشیر خدمات فراہم کرنے والوں میں ایک ریٹائرڈ فور اسٹار ایئر فورس جنرل اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے سابق کمانڈنگ جنرل شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں امریکا کو فوجی اڈے بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، وزیر خارجہ
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ زیادہ تر ریٹائرڈ امریکی اہلکاروں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور خلیج فارس کی دیگر بادشاہتوں کے لیے سویلین کنٹریکٹرز کے طور پر کام کیا ہے اور ان کی افواج کو ’اپ گریڈ‘ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
امریکی کانگریس ریٹائرڈ فوجیوں کے علاوہ اضافی فوج کے اہلکاروں کو متعلقہ مسلح افواج اور محکمہ خارجہ سے منظوری حاصل کرنے کی صورت میں غیر ملکی حکومتوں کے لیے کام کرنے کی اجازت دیتی ہے، تاہم امریکی حکومت ان بھرتیوں کو خفیہ رکھتی ہے۔
یہ معلومات حاصل کرنے کے لیے ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے امریکی فوج، فضائیہ، بحریہ، میرین کور اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے خلاف ’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘ کے تحت وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔
2 برس کی قانونی جنگ کے بعد ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزات حاصل کیں جن میں تقریباً 450 ریٹائرڈ فوجیوں، ملاح، ایئر مین اور میرینز کی کیس فائلیں شامل ہیں۔
دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ غیر ملکی حکومتیں امریکی فوجی اہلکاروں کی خدمات کے عوض بہت زیادہ ادائیگی کرتی ہیں، تنخواہ اور مراعات کا پیکج 6 اور بعض اوقات 7 کے ہندسے تک پہنچ جاتا ہے۔
دوران ملازمت فور اسٹار جرنیل بنیادی تنخواہ کی مد میں سالانہ 2 لاکھ 3 ہزار 698 ڈالر کماتے ہیں، ستمبر میں یو ایس ڈسٹرکٹ جج امیت پی مہتا نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے حق میں فیصلہ سنایا اور حکومت کو تنخواہ پیکجز اور دیگر مواد کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا۔
دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ایک ریٹائرڈ آرمی لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلن (جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں) نے فوج سے ریٹائر ہونے کے ایک سال بعد 2015 میں روسی اور ترکی سے 4 لاکھ 49 ہزار 807 ڈالرز حاصل کیے، انہوں نے 2012 سے 2014 تک ڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔
ایک اور امریکی جنرل کیتھ الیگزینڈر ہیں جنہوں نے سعودی حکومت کے سائبر سیکیورٹی ایڈوائزر کے طور پر کام کیا، وہ مارچ 2014 میں فوج سے ریٹائر ہوئے تھے۔
کارل ایکن بیری، ریٹائرڈ تھری اسٹار آرمی جنرل ہیں جنہوں نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیوں کی کمانڈ کی اور بعد میں کابل میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ 2021 سے سعودی وزارت دفاع کے سینیئر مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بعض امریکی جرنیل برے رویے کے سبب امریکی فوج سے جبری ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔
امریکی بحریہ کے ریٹائرڈ ریئر ایڈمرل سٹیون جی اسمتھ نے 2017 سے 2020 تک ریاض میں وزارت دفاع کے مشیر کے طور پر ایک بڑی بین الاقوامی مشاورتی فرم ’بوز ایلن ہیملٹن‘ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت کام کیا، تاہم انہوں نے اس کام کے لیے بحریہ اور محکمہ خارجہ سے منظوری نہیں لی تھی۔
انہوں نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ انہیں اس منظوری کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ’بوز ایلن ہیملٹن‘ نے براہ راست ان کی خدمات حاصل کی ہیں اور انہیں سعودیوں کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں پیچیدگیاں درپیش نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ مئی 2020 میں امریکی فوج نے ایک ریٹائرڈ افسر کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا جسے سعودی وزارت دفاع کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے جونز گروپ انٹرنیشنل کے ساتھ 3 لاکھ ڈالر سالانہ کی ملازمت کی پیشکش تھی۔