اگر ہم بھارت بالخصوص ممبئی (بالی وڈ) میں بننے والی فلموں کے ماضی میں جھانکتے ہیں تو ہمیں ہند و مسلم اتحاد اور یکجہتی کا درس و پیغام دیتی فلمیں ملتی ہیں۔ سن 1959 کی فلم دھول کے پھول کا یہ نغمہ ‘تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے، انسان بنے گا’۔
اس کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ تقسیم ہند کے خونریز فسادات کے پس منظر میں بالی وڈ کی فلمیں امید کی ایک کرن تھیں، جو فرقہ پرستی اور نفرت کے ماحول کے خلاف ایک طرح سے پرچم بلند کیے ہوئے تھیں۔ لیکن آج تفریح کا یہ سب سے سستا مگر انتہائی طاقتور وموثر ذریعہ معصوم اور سادہ لوح عوام کو نفرت اور تعصب کے زہر سے مسموم کرنے کا ایک ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایسی فلموں کا ایک ریلا آیا ہوا ہے، جس کے ذریعہ نہ صرف تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے بلکہ ملک کے دو بڑے مذہبی فرقوں کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔
ایسا نہیں کہ ماضی میں تاریخی نوعیت کی فلمیں نہیں بنتی تھیں تاہم ان میں اس قدر حقائق کومسخ نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن جب سے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کو سیاسی عروج حاصل ہوا ہے، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جو اس کی زد سے محفوظ رہا ہو۔
تاریخ کی کتابوں اور نصابی کتب کو مسخ کرنے بعد اب فلموں کا بڑے پیمانے پر فرقہ پرستی کے فروغ اور تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے منظم طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بھارت میں فلم سازی کے سب سے بڑے مرکز ممبئی میں تاریخ کے نام پر، جو فلمیں بن رہی ہیں ان میں مسلمانوں سے نفرت، ہمسایہ ملک کی غلط شبیہ پیش کر نے اور تاریخ کو توڑ مروڑنے کا خاصا مواد ہوتا ہے۔
مئی2014 ء میں بھارت کی موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے فلموں کا مبینہ طور پر سیاسی مقاصد کے استعمال کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس سے قبل فلمی صنعت اس سیاسی دست برد اور دخل اندازی سے محفوظ تھی۔ ان فلموں کا مقصد حکمراں جماعت اور اس کی مربی تنظیم کے نظریات کی تبلیغ و ترویج ہے، جو برصغیر میں مسلم دور حکومت کو ظلم و استبداد اور غلامی سے تعبیر کرتی ہے۔
بھارت کا اس سے قبل کوئی ایسا وزیراعظم نہیں گزرا ہے، جس نے اعلانیہ طور پر کسی متنازعہ فلم کی حمایت کی ہو۔ ایک ایسی فلم، جو فرقہ وارانہ جذبات کو بر انگیختہ کر نے والی ہے اور کئی مقامات پر اس فلم کے کی نمائش کے خلاف مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے۔
میں بات کر رہی ہوں امسال کے اوائل میں نمائش کے لیے پیش ہوئی فلم کشمیر فائلز کی۔ جموں و کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد نوے کی دہائی کے اوائل میں کشمیری پنڈتوں نے بڑے پیمانے پر وادی کشمیر سے ہجرت کی۔ اس موضوع پر بنی اس فلم میں حقائق کو اس قدر مسخ کیا گیا ہے کہ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فلم پروڈیوسر اور فلمی عملے کی ستائش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ اظہار رائے کی آزادی کی وکالت کرتے ہیں وہ اس فلم پر تنقید کر رہے ہیں، جس کے ذریعے سالوں سے دبا ہوا سچ منظر عام پر آیا ہے۔ جبکہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کے بقول یہ فلم جھوٹ کا پلندہ ہے، جب کشمیری پنڈتوں نے وادی چھوڑی تھی تو اس وقت فاروق عبداللہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلی نہیں تھے جیسا کہ فلم میں دکھایا گیا ہے۔ وہاں گورنر راج تھا اور جگموہن گورنر تھے جب کہ مرکز میں بی جے پی کی حمایت سے قائم وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت تھی۔ مزید یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ جگموہن کی بی جے پی سے وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی بعد ازاں وہ بی جے پی رہنما اٹل بہاری کی قیاد ت میں بھارتی حکومت میں وزیر بھی بنائے گئے تھے۔
اس قبیل کی فلموں کی ایک طویل فہرست ہے، جو حالیہ برسوں میں فلم ہالوں میں نمائش کے لیے پیش ہوئی ہیں۔ ان میں سمراٹ پرتھوی راج (اجمیر کے راجا پرتھوی راج چوہان) مراٹھا سپہ سالار پر بنی تاناجی، رانی پدماوت، پانی پت، تاشقند فائلز، غازی، شیر شاہ، بٹلہ ہاؤس، بھگت سنگھ، کیسری، مشن کشمیر، اڑی سرجیکل اسٹرائیک وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
سمراٹ پرتھوی راج کے عنوان سے بنی فلم میں افغانستان کے غور قبیلے سے تعلق رکھنے والے سلطان محمد غوری کو انتہائی ظالم، جابر، بزدل اور دھوکے باز کی شکل میں پیش کیا گیا ہے اور پرتھوی راج چوہان کو ہیرو۔ جو اجمیر کا راجا تھا۔ ان دونوں کے درمیان ترائن کے میدان میں دو مرتبہ جنگ ہوئی۔ پہلی جنگ میں غوری کو شکست ہوئی جبکہ دوسری جنگ میں پرتھوی راج مارا گیا لیکن فلم میں اسے زندہ بتایا گیا جبکہ غوری مارا جاتا ہے۔ پرتھوی راج 1192ء میں میدان جنگ میں مارا گیا جبکہ محمد غوری کا انتقال 1206ء میں ہوا تھا۔
بھارت کی ریاست ہریانہ میں جو آزادی سے قبل پنجاب کا حصہ ہوا کرتا تھا، میں واقع تاریخی پانی پت کے میدان میں تیسری جنگ مراٹھا پیشوا اور افغان حکمراں احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہوئی تھی۔ اس تاریخی جنگ پر 2019ء میں پانی پت کے عنوان سے فلم بنائی گئی۔ اس فلم کی ہدایت آشو توش گوواریکر نے دی، جو اس سے پہلے بھی اسی طرح کی تاریخی فلموں کی ہدایت کاری کر چکے ہیں۔ اس فلم میں بھی افغان حکمراں کی کردار کشی کی گئی ہے اور مراٹھا فوج کی بہادری کو نمایاں کیا گیا۔ جبکہ اس جنگ میں مراٹھا فوج کو شکست ہوئی تھی۔ میری آبائی ریاست کی سرکاری زبان مراٹھی میں اسی جنگ کے حوالے سے یہ مقولہ مشہور ہوا “تیانچہ تر پانی پت جھالے”یعنی ( ان کا تو دیوالیہ نکل گیا یا سب کچھ ختم ہو گیا)۔
ایک اور فلم رانی پدماوت ہے، جس میں خلجی خاندان کے سلطان علاؤالدین خلجی کو ایک سفاک ظالم اور خونخوار بھیڑیا دکھایا گیا ہے، جو ایک خوبصورت راجپوت رانی پدماوتی کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ تاریخ کی کتابوں میں یہ کہیں ذکر نہیں ملتاکہ وہ کسی رانی پدماوتی کا دیوانہ تھا اس فلم کی نمائش پر 2018ء میں راجپتوں کی تنظیم کرنی سینا نے پرتشدد مظاہرے کیے تھے۔
مشن کشمیر بھی کشمیر میں شدت پسندی کے موضوع پر مبنی فلم ہے جو 2000ء میں سینما ہالوں میں دکھائی گئی۔ ایک اور فلم اڑی، سرجیکل اسٹرائیک نام کی فلم 2019ء میں منظر عام پرآئی۔
تاشقند فائلز فلم کے ہدایت کار بھی وویک اگنی ہوتری ہیں۔ اس فلم میں تاشقند میں پاکستانی صدر ایوب خان سے ملاقات کے بعد وزیراعظم لال بہادر شاستری کی موت کے حوالے سے جو مختلف سازشی تھیوریاں ہیں ، انہیں فلمایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ عام بات ہے کہ شاستری کی موت حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئی تھی لیکن فلم میں اسے ایک معمہ اور سازش بتانے کی کوشش کی گئی۔
بہرحال ایسی فلمیں لوگوں کے جذبات سے کھیل کر پیسہ کمانے کا بھی ایک آسان ذریعہ بن گئی ہیں۔ اگنی ہوتری نے کشمیر فائلز سے ساڑھے تین سوکروڑ سے زائد منافع کمایا جبکہ فلم پر لاگت 15کروڑ کی آئی تھی۔
میں سمجھتی ہوں کہ فلموں کا سیاسی مقاصد کے لیے یہ استعمال خطرناک مضمرات کا حامل ہے، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں آج بھی لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ناخواندہ اور سیاسی شعور سے عاری ہے۔ (مضمون میں مضمون نگار کی رائے ذاتی ہے اورقومی آواز کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں ہے)