اتوار کی شام، 20 سال کے چراغ موچھاڑیا اور ان کے دو بھائی 17 سالہ دھارمک اور 15 سال کے چیتن گھر سے باہر سیر و تفریح کے لیے نکلے تھے۔
انھوں نے اپنی والدہ کانتا بین کو بتایا کہ وہ ‘جُھلتو پل’ یا لٹکنے والے پل پر جا رہے ہیں۔ یہ نوآبادیاتی دور کا ایک تاریخی پل ہے جو مہینوں کی مرمت کے بعد چند دن پہلے ہی دوبارہ کھولا گیا تھا۔
دیوالی کے موقع پر سکول بند تھے اور بہت سے خاندانوں نے سیرو تفریح کی غرض سے اس پل کا رخ کیا تھا۔
چراغ اور ان کے بھائی بھی اسی لیے وہاں گئے تھے۔
انھوں نے ایک ٹکٹ بالغوں والا لیا جس کی قمت 17 روپے تھی اور دو بچوں کے ٹکٹ لیے جس کی قیمت 12 روپے تھی۔
نتن کاوییا بھی اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ ان کی ایک بیٹی سات سال کی اور دوسری سات ماہ کی نوزائیدہ تھی۔
اس خاندان نے سیلفی کے ساتھ ساتھ دوسری تصاویر بھی لیں۔ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے چھ بجے کے قریب وہ پل سے اترے اور ماچھو ندی کے ایک کنارے پر بیٹھ گئے۔
نتن کہتے ہیں کہ ‘اس پل پر بہت بھیڑ تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس پر 400-500 لوگ موجود ہوں گے۔’
BBCسوگوار والدہ کانتا بین مچھاڑیا
‘میں نے جا کر ٹکٹ بیچنے والوں سے کہا کہ وہ بھیڑ کو کم کریں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے ایسا کیا کہ نہیں۔’
دس منٹ بعد جب وہ اپنی بچی کو پانی پلانے کے لیے نیچے جھکے تو انھوں نے چیخ و پکار کی آوازیں سنیں۔ دریا کے دوسرے کنارے کے قریب پل ٹوٹ گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ‘میں نے لوگوں کو پانی میں گرتے دیکھا اور اس کے بعد وہ اوپر نہیں آئے۔ بہت سے دوسرے لوگ پل کے کچھ حصوں سے چمٹے ہوئے تھے اور تیرتے رہنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے جس کی مدد ہو سکتی تھی، مدد کرنے کی کوشش کی۔’
اس واقعے میں کم از کم 141 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ چراغ، چیتن اور دھارمک بھی مرنے والوں میں شامل تھے۔
BBCنتن اپنی فیملی کے ساتھ چند لمحے قبل اس پل پر تھے
ان بھائیوں کے ایک دوست نے ان کی والدہ کانتا بین کو بتایا کہ پل گر گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ بات سنتے ہی میں نے اپنے بیٹوں کو فون کرنا شروع کیا لیکن فون نہیں لگا۔ میں بہت بے چین تھی۔’
ان کے شوہر راجیش جائے حادثہ کی طرف بھاگے۔ پھر ہسپتالوں کے چکر لگانے لگے۔ رات 11 بجے انھیں موربی سول ہسپتال میں دھارمک اور چراغ کی لاشیں ملیں۔
دریں اثنا رات کی تاریکی میں پولیس، مقامی حکام، ڈیزاسٹر ریسپانس ٹیموں اور فوجی اہلکاروں نے زندہ بچ جانے والوں اور مرنے والوں کی لاشوں کی تلاش جاری رکھی۔
صبح تین بجے جا کر چیتن کی لاش بھی ملی۔ اس خاندان کے گھر پر صف ماتم بچھ گئی اور تعزیت کرنے والوں اور سوگواروں کی لائن لگ گئی۔
کانتا بین کہتی ہیں کہ ‘ہم نے اپنے تمام بیٹے، اپنا سب کچھ کھو دیا۔ اب ہمارے پاس کیا ہے؟ میں اور میرے شوہر تنہا رہ گئے ہیں۔’
یہ بھی پڑھیے
بیس سالہ چراغ عینک بنانے والی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ ان کی کمائی اور ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے ان کے والد راجیش کی کمائی سے گھر چلتا تھا۔
راجیش کہتے ہیں کہ چراغ بہت اچھا انسان تھا۔ اس نے میری ہر بات مانی اور اس نے جو کچھ بھی مانگا، میں نے بھی اسے وہ دینے کی کوشش کی۔’
دھارمک 14 دسمبر کو 18 سال کے ہو جاتے۔ انھوں نے نوکری کی تلاش شروع کر دی تھی۔
ان کے والد کہتے ہیں کہ ‘وہ بہت شرارتی تھا۔ ہم نے ایک ساتھ بہت مزہ کیا تھا۔ اب وہ سب چلے گئے ہیں۔’
AFPرات بھر امدادی کارکن لاشوں کی تلاش کرتے رہے
ان کی ماں بتاتی ہیں کہ ‘اسے تیل والا پراٹھا بہت پسند تھا اور ہمیشہ چاہتا تھا کہ میں اس کے لیے تیل والا پراٹھا بناؤں۔’
چیتن سب سے چھوٹا تھا اور وہ سکول میں دسویں جماعت میں تھا۔ راجیش اسے ‘پڑھنے میں ماسٹر’ کہتے تھے۔
وہ فخر کے ساتھ اپنے بیٹوں کی پاسپورٹ سائز تصاویر دکھاتے ہیں، جو بظاہر کچھ سال پہلے اس وقت لی گئی تھیں جب وہ چھوٹے تھے۔
کانتا بین کہتی ہیں کہ ‘جو بھی میرے بیٹوں کی موت کا ذمہ دار ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ انھیں ساری زندگی جیل میں سڑنا چاہیے۔ انھیں موت کی سزا ملنی چاہیے۔’
راجیش مزید کہتے ہیں کہ ‘مجھے جواب اور انصاف چاہیے۔’
ایسے اور بھی بہت سے خاندان ہیں، جنھوں نے اس تباہی میں ایک سے زیادہ افراد کو کھو دیا ہے۔
اس معاملے میں اب تک نو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں ٹکٹ بیچنے والے، سکیورٹی گارڈز اور پل کی تزئین و آرائش کرنے والی کمپنی اوریوا کے منیجر بھی شامل ہیں۔
اوریوا نے پل گرنے کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ کچھ یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا کمپنی میں اعلیٰ سطح کے مینیجرز کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔
بہت سے شہری حکام کے کردار پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا پل کو دوبارہ کھولنے سے پہلے حفاظتی جانچ پڑتال بھی کی گئی تھی۔
نتن کہتے ہیں کہ ‘اب جب بھی میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو میں صرف گرنے والے پل کا منظر دیکھتا ہوں اور دریا میں ڈوب جانے والے لوگوں کی چیخ و پکار سنتا ہوں۔’
آکریتی تھاپر اور سنجے گنگولی کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ