ان دنوں یہ سوال ہر اس شخص کے ذہن میں آتا ہے جو نئی گاڑی خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کچھ لوگ انھیں مشورہ دیتے ہیں کہ آنے والا وقت صرف الیکٹرک گاڑیوں کا ہے، لہٰذا اسی میں پیسہ لگائیں۔
کیا انڈیا میں الیکٹرک گاڑی خریدنے کا یہ صحیح وقت ہے؟
تو دوسری جانب کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ملک ابھی الیکٹرک گاڑی کے لیے تیار نہیں اور اسے خریدنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اوپر پوچھے گئے سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے آئیے کچھ اعدادوشمار پر نظر ڈالتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت انڈیا میں 13 لاکھ سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں زیر استعمال ہیں۔
صنعتوں کے وزیر مملکت کرشن پال گرجر نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا تھا کہ 3 اگست 2022 تک تھری وہیلر یعنی ای رکشہ انڈیا میں الیکٹرک گاڑیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے، جن کی تعداد تقریباً 8 لاکھ ہے۔
اس کے بعد دو پہیہ گاڑیوں کا نمبر آتا ہے جو پانچ لاکھ سے زیادہ ہیں اور پھر فور وہیلر کا نمبر آتا ہے جو 50 ہزار سے کچھ زیادہ تعداد میں استعمال ہو رہے ہیں۔
مالی سال 2021-22 میں ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں پچھلے مالی سال کے مقابلے تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں پر جی ایس ٹی کو بھی 12 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دیا۔
یہ انڈیا میں الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق اعداد و شمار کا معاملہ ہے۔
آئیے اب ہم ان مسائل اور چیلنجز کے بارے میں بات کرتے ہیں جن کا انڈیا کو الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے سامنا ہے۔
الیکٹرک گاڑی کی قیمت
الیکٹرک گاڑیوں کی قیمت پٹرول یا ڈیزل گاڑیوں سے زیادہ ہے۔
اگرچہ حکومت ان پر طرح طرح کی رعایتیں دے رہی ہے لیکن پھر بھی یہ پٹرول ڈیزل گاڑیوں کے مقابلے زیادہ قیمت پر دستیاب ہیں۔
مثال کے طور پر دلی میں ٹاٹا کی نکسن Nexon گاڑی کی قیمت ساڑھے سات لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور 15 لاکھ تک جاتی ہے۔ دوسری طرف نکسن کی الیکٹرک گاڑی کی قیمت دلی میں 15.5 لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور 18 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
بیٹری کی عمر
لیتھیم آئن بیٹریاں الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بیٹریاں صرف 6 سے 7 سال تک چلتی ہیں۔ اس کے بعد انھیں تبدیل کرنا ہوگا۔
بیٹریوں کی مختصر زندگی خریداروں کے ذہن میں شک پیدا کرتی ہے۔ دراصل، ایک بیٹری کی قیمت ایک الیکٹرک گاڑی کی رقم کے تین چوتھائی کے برابر ہے۔
حالانکہ حکومت نے گزشتہ سال پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو (PLI) سکیم کو منظوری دی تھی۔ یہ سکیم ملک میں ایڈوانسڈ کیمسٹری سیل (اے سی سی) کی تیاری کے لیے لائی گئی تھی تاکہ بیٹریوں کی قیمت کو کم کیا جا سکے
چارجنگ سٹیشنز کی کمی
انڈیا میں الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز کی بہت زیادہ کمی ہے۔ جس طرح ہم ہر شاہراہ یا سڑک پر پیٹرول پمپ دیکھتے ہیں، اس کے مقابلے میں چارجنگ سٹیشن بہت کم جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔
حکومت کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 1740 پبلک چارجنگ سٹیشن چل رہے ہیں۔
کئی بار یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کو چارج کرنے کی سہولت پیٹرول پمپ پر ہی فراہم کی جائے لیکن اس میں ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کو چارج کرنے میں ایک سے پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔
اس لیے ای وی کو چارج کرنا اتنا تیز نہیں ہو سکتا جتنا پیٹرول، ڈیزل یا سی این جی گاڑی میں بھرنا۔ اس کے علاوہ گھر پر EV کی بیٹری کو چارج کرنے میں بھی مختلف چیلنجز ہیں۔
عام طور پر لوگ دو پہیوں والی سواری یا ای رکشہ کی بیٹری گھر پر ہی چارج کرتے ہیں لیکن اس میں کافی وقت لگتا ہے کیونکہ صبح گاڑی کو تیار رکھنے کے لیے اسے رات کو چارجنگ پر رکھا جاتا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی رینج کا مسئلہ
چارجنگ سٹیشنز کی کمی کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی رینج کے حوالے سے ڈرائیوروں کے ذہنوں میں خوف بھی پیدا ہوتا ہے۔
طویل فاصلہ طے کرنے والے ڈرائیور اکثر الیکٹرک گاڑیوں کی کم رینج سے پریشان نظر آتے ہیں۔
بیورو آف انرجی ایفیشنسی کے مطابق دو پہیوں والی برقی گاڑیوں کی رینج 84 کلومیٹر فی چارج کے طور پر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی، چار پہیوں والی برقی گاڑیوں کی اوسط رینج 150-200 کلومیٹر فی چارج بتائی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بہتر بیٹریاں اور زیادہ چارجنگ سٹیشنز لگانے کے بعد یہ مسئلہ حل کیا جا رہا ہے۔
ایک سے زیادہ چارجنگ پورٹس کا چیلنج
ہر کمپنی الیکٹرک گاڑیوں میں اپنا الگ چارجنگ پورٹ مہیا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے الیکٹرک گاڑیوں کے لیے یونیورسل چارجنگ سسٹم بنانے میں بڑا مسئلہ ہے۔ انڈیا کی ای وی مارکیٹ میں چارجنگ پورٹ کے لیے ابھی تک کوئی ایک معیار مقرر نہیں کیا گیا۔ یہ مسئلہ دو پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔ جہاں مختلف قسم کی بیٹریاں اور ان کی مختلف چارجنگ پورٹس مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
انڈیا میں درجہ حرارت
گاڑیوں کی کارکردگی میں موسم اور درجہ حرارت بھی بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم ای وی کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو یہاں درجہ حرارت ایک بڑا عنصر بن جاتا ہے۔ عام طور پر الیکٹرک گاڑی کی بہتر کارکردگی کے لیے اوسط درجہ حرارت کی حد 15-40 ڈگری سیلسیس کو سمجھا جاتا ہے لیکن انڈیا میں، جہاں پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت بہت کم ہوتا ہے، مغربی علاقوں میں درجہ حرارت بہت زیادہ رہتا ہے۔
ایسے میں ایک قسم کی الیکٹرک گاڑیاں پورے ملک کے لیے کام نہیں کر سکتیں۔
حل کیا ہے؟
بڑھتی ہوئی آلودگی اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کو دیکھ کر یہ بات یقینی ہے کہ آنے والا وقت صرف الیکٹرک گاڑیوں کا ہے اور حکومت الیکٹرک گاڑیوں پر سبسڈی بھی دے رہی ہے۔
اس کے علاوہ الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ گاڑی کو چند گھنٹوں کے لیے چارجنگ سٹیشن پر چھوڑنے کی سہولت بھی فراہم کی جانی چاہیے۔
اس کا ایک بہتر متبادل بیٹری سویپ کی سہولت ہو سکتی ہے، جس میں ڈیڈ بیٹری کو فوری طور پر اسی وارنٹی کے ساتھ پوری بیٹری کے ساتھ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔