گنجے پن کا علاج ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے صدیوں سے سائنسدانوں کو پریشان کر رکھا ہے اور ہر دور میں وہ اس جستجو میں رہے کہ کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔
یہاں تک کے مشہور یونانی طبیب بقراط، جنھیں اپنے وقت کے مذہبی اعتقادات کو سائنسی مشاہدات کی روشنی میں پرکھنے کی وجہ سے جدید سائنس کا ‘جد امجد’ کہا جاتا ہے، وہ بھی گنجے پن کے عمل کو روکنے کے طریقے کو آزماتے رہے۔
اگرچہ اب ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بالوں کا نظام کیسے کام کرتا ہے اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ گنجے پن کی وجوہات ہماری جینیاتی ساخت سے لیکر موسمی اثرات تک، کچھ بھی ہو سکتی ہیں لیکن اب بھی بالوں کے جھڑنے کے حوالے سے بہت سی سنی سنائی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
اس حوالے سے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں بالوں اور سر کی کھال کے مسائل کی ماہر، ڈاکٹر کیرولن گوہ کہتی ہیں کہ ‘ضروری نہیں کہ گنجا ہونا کوئی بری بات ہو۔’
بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے جلدی امراض کی ماہر کا کہنا تھا کہ گنجے پن کے بارے میں تین مفروضے ایسے ہیں جنھیں لوگ ابھی تک سچ سمجھتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ بقراط بھی گنجے پن کا علاج تلاش کرتے رہے
پہلا مفروضہ: سارا قصور ماں سے ملنے والی جینز کا ہے
یقیناً آپ نے بھی دوستوں یا خاندان کے لوگوں سے سنا ہوگا کہ گنجے پن کا سبب بننے والی جِینز ماں کی فیملی کی طرف سے آتی ہیں، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
برطانوی جریدے پی ایل او ایس جینیٹکس میں شائع ہونے والی 2017 کی ایک تحقیق میں برطانوی محققین کے ایک گروپ نے موروثی گنجے پن کے شکار 52 ہزار مردوں کا مطالعے کیا۔
محققین کا دعویٰ تھا کہ وہ کم از 287 ایسی جینز کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے تھے جو ان افراد میں گنجے پن کا سبب ہو سکتی تھیں۔
ان 287 جینز میں سے ماہرین ایسی 40 جینز کو الگ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے جن کا تعلق ایکس کروموسوم سے تھا، یعنی وہ کروسوم جو ان افراد کو اپنی ماؤں کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔
‘یہ سچ ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور جینز ماں کی طرف سے آتی ہیں لیکن چونکہ گنجے پن کا سبب ایک سے زیادہ قسم کی جینز ہوتی ہیں اور یہ جینز دونوں طرف سے آ سکتی ہیں، لہٰذا گنجا پن (ماں اور باپ) دونوں کی طرف سے آ سکتا ہے۔’
گنجا پن ماں باپ ، دونوں کی طرف سے آ سکتا ہے
یہ سمجھنے کے لیے کہ مردوں کی طرح عمر کے ساتھ ساتھ خواتین کے بال کیوں نہیں ختم ہو جاتے، اس کے لیے اس موروثی عمل کو سمجھنا ضروری ہے جسے سائنسدان ‘اینڈو جنیٹِک ایلوپسیا’ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر کیرولن گوہ کے مطابق اس قسم کے گنجے پن یا ایلوپیسا کا سبب بننے والی جینز مردوں میں زیادہ اثر دکھاتی ہیں جس کی وجہ مردوں میں پائے جانے والے ہارمون، ٹیسٹوسرون کا ایک جزو ہے۔ یہ چیز مردوں اور خواتین دونوں میں ہو سکتی ہے لیکن دونوں میں فرق ہوتا ہے۔
‘عموماً خواتین گنجے پن کا شکار نہیں ہوتیں۔ ان کے سر کے اوپر والے حصے سے کچھ بال گر جاتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ خواتین میں ٹیسٹوسرون کی مقدار اتنی نہیں ہوتی جتنی مردوں میں ہوتی ہے اور ہم میں ایسٹروجن کی موجودگی گنجے پن والی موروثی جینز کے اثر کو زائل کر دیتی ہے۔’
دوسرا مفروضہ: ٹوپی پہننے یا زیادہ دھونے سے بال گِر جاتے ہیں
آپ ہفتے میں کتنی بار اپنے بال دھوتے ہیں؟ روزانہ یا ہفتے میں تین بار؟ کیا آپ ہر وقت ٹوپی یا ہیٹ پہنے رکھتے ہیں؟
شاید آپ کے بال گرنے کی وجہ بال دھونا یا ٹوپی پہننا نہ ہو لیکن آپ کا حجام آپ کو یہی کہتا ہو گا۔
ڈاکٹر گوہ کہتی ہیں کہ ‘ اگر آپ کسی شخص کو اپنا سر ڈھانپے دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بال جھڑ رہے ہیں، نہ کہ یہ کہ وہ ٹوپی پہننے کی وجہ سے گنجا ہو گیا ہے۔’
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ٹوپی پہنے رکھنے سے آپ گنجے ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ یہ دونوں باتیں محض مفروضے یا سنی سنائی باتیں ہیں لیکن ان کا تعلق ایک بات سے جو کہ سچ ہے اور یہ ہے کہ آپ کے سر کا اوپر والا حصہ ہمارے جسم کے ان حصوں میں سے ایک ہے جو سب سے زیادہ چکنا ہوتا ہے۔
لیکن ‘بہت زیادہ چکنا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سر کے اوپر کا حصہ ہمارے جسم کا سب سے حساس حصہ ہوتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جسم کے باقی حصوں کے مقابلے میں ہمارے سر کی جلد پر انفیکشن سب سے کم ہوتی ہے۔’
ڈاکٹر کوہ کے بقول اگر آپ بال دھونے کے لیے ٹھیک چیزیں استعمال کر رہے ہیں تو روزانہ بال دھونے میں بھی کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔
تیسرا مفروضہ: بال جھڑنے کا عمل روکنے کا کوئی نسخہ نہیں
اگر موجودہ دور کی بات کریں تو گنجے پن کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم تین ایسے طبی حل موجود ہیں۔
بال گرنے کی کیمیائی اور جسمانی وجوہات اتنی مختلف ہو سکتی ہیں کہ گنجے پن کو روکنے کا کوئی بھی متبادل طریقہ سو فیصد نتائج کی ضمانت نہیں دیتا لیکن یہ طریقے بال گرنے کی رفتار کو کم سکتے ہیں اور بعض صورتوں میں اس عمل کو الٹا بھی سکتے ہیں یعنی آپ کے بال واپس شروع ہو سکتے ہیں۔
منوکسیڈِل: ایک کیمیائی مرکب ہے جو لوشن یا جھاگ کی شکل میں ملتا ہے اور اسے سر کے اوپری حصے پر لگایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی کچھ غیر سائنسی تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ منوکسیڈل کے کیسپول کھانے سے کچھ ایسے لوگوں کے بال دوبارہ سے اگ آئے جو گنج پن کا شکار ہو چکے تھے، تاہم ابھی تک متعلقہ اداروں کی جانب سے اسے کیپسول کی شکل میں فروخت کرنے کی منظوری نہیں ملی۔
فِینا سٹیرائیڈ: یہ کھانے والی دوا ہے۔ یہ دوا اصل میں مثانے میں سوجن یا پراسٹیٹ کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی تھی، تاہم اب اسے تھوڑی مقدار میں گرتے بالوں کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔
ہیئر ٹرانسپلانٹ یا بالوں کی پیوند کاری: اس عمل میں عموماً آپ کے سر کے بالوں والے حصے سے بال نکال اس حصے پر لگائے جاتے ہیں جہاں سے بال جھڑ چکے ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس شعبے میں خاصی ترقی ہو چکی ہے اور ہیئر ٹرانسپلاٹ کے مختلف نئے طریقے سامنے آ چکے ہیں۔
گنجے پن سے نمٹنے کے اس جدید ترین طریقے کے بارے میں ڈاکٹر گوہ کہتی ہیں کہ حوالے سے بھی خاصی غلط فہمی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ ٹرانسپلانٹ کراتے ہیں تو آپ کے بال اچھے نہیں لگتے۔