سونیا گاندھی: نامساعد حالات کے درمیان ملک اور خاندان کی ذمہ داری اٹھانے والی ایک شاندار شخصیت
سونیا گاندھی کی شاندار اور پراسرار شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرنے سے پہلے یہ سمجھنا اور جاننا ضروری ہے کہ تاریخ نے نہرو خاندان کو کیا کردار یا ذمہ داری سونپی ہے۔ میں دو وجوہات کی بنا پر لفظ ‘نسب’ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ پہلی بات تو یہ کہ سونیا گاندھی نہرو خاندان میں پیدا نہیں ہوئیں۔ اور دوسرا اس لیے کہ لفظ ‘نسب ‘ ہندوستان کے شہریوں کو صرف ‘رعایا’ تک محدود کرتا ہے۔ ایسی رعایا جو عاجز اور ملک کے باشندے ہیں لیکن حکمرانوں کے ہاتھوں کسی بھی قسم کی ناانصافی، ظلم اور ذلت کو قبول کریں گے، خواہ وہ مقامی ہوں یا غیر ملکی۔
ویسے بھی لفظ ‘نسب’ سے مراد میراث یا وارث کا اعلان ہے۔ اگر لفظ خاندان کے ایسے معنی نکالے جائیں تو ملک کے شہری سیاسی طور پر ناخواندہ اور جاہل یا سادہ لوح نظر آئیں گے لیکن ایسا نہیں ہے اور یہ بار بار غلط ثابت ہوتا رہا ہے۔ آخرکار، یہ ہندوستانی ووٹر ہی تھے جنہوں نے 1977 میں اندرا گاندھی کو شکست دی اور 1989 میں راجیو گاندھی کی قیادت والی کانگریس کو دوبارہ منتخب نہیں کیا۔ امیٹھی سے راجیو گاندھی کی جیت کا مارجن بھی کافی کم ہو گیا تھا۔ اور اتر پردیش، جو اس وقت نہرو خاندان کی آبائی ریاست سمجھی جاتی تھی، اس نام نہاد خاندان نے صرف 15 کانگریسی امیدواروں کو منتخب کیا تھا۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی 1952، 1957 اور 1962 میں اپنے دور میں کبھی بھی ریکارڈ ووٹ حاصل نہیں کئے اور ملک بھر میں زبردست اثر و رسوخ رکھنے والی کانگریس پارٹی کل ووٹوں کے 47 فیصد سے زیادہ حاصل نہیں کر سکی۔
اگر یہ خاندان واقعتاً اپنے آپ کو ایک ‘خاندان’ کے طور پر پیش کر رہا ہوتا، یا ایسا دکھاوا کر رہا ہوتا اور لوگ اس کے کام کو رعایا کی طرح حیرت سے دیکھ رہے ہوتے، تو مینکا گاندھی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا، وہ بھی اسی طرح کی توجہ حاصل کرتیں ۔ ایک طرح سے، مینکا گاندھی ‘تخت’ کی پہلی دعویدار تھیں، کیونکہ سنجے گاندھی اپنے بڑے بھائی کے (سیاست میں) آنے سے تقریباً چھ سال پہلے ہی سیاست میں قدم رکھ چکے تھے اور یوتھ کانگریس کے پرچم بردار بن گئے تھے۔
مینکا گاندھی ہر جگہ سنجے کے ساتھ جاتی تھیں، قسمت سے اس دن کو چھوڑ کر جس دن سنجے کی ایک فلائٹ نے جان لے لی ۔ پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ نہرو خاندان کے اثر و رسوخ اور سنجے گاندھی کی بیوہ ہونے کی چمک کے باوجود، عوام کبھی مینکا گاندھی کے لئے اس طرح نہیں امنڈا جس طرح سونیا گاندھی کے لئے امنڈا ۔ اگر خاندانی رغبت واقعی کام کرتی، تو یہ یقینی طور پر مینکا گاندھی کے لیے بھی بہت زیادہ ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرتی، کیونکہ انہیں سونیا گاندھی کے برعکس ایک ہندوستانی بیٹی ہونے کا اضافی فائدہ حاصل تھا۔ سنجے گاندھی، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے انتقال کے بعد کانگریس میں کسی ایک شخص نے بھی مینکا سے پارٹی کی قیادت سنبھالنے کی اپیل نہیں کی۔ پھر بھی خاندانی اصول یہ لازمی کرے گا کہ مینکا گاندھی کو پارٹی کی قیادت کے لیے آگے لایا جائے گا۔
اگر ہم ایک معروضی جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ملک کی عوامی زندگی میں نہرو-گاندھی خاندان کے غلبہ کے لیے اس خاندان کے خاندانی عزائم بلکہ حالات ذمہ دار ہیں۔
1967 کا الیکشن علاقائی جماعتوں کے عروج کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ تمل ناڈو میں دراوڑ منیترا کزگم یا ڈی ایم کے، پنجاب میں اکالی دل، مہاراشٹر میں شیوسینا، کیرالہ اور مغربی بنگال میں سی پی ایم (ایک علاقائی طاقت کے طور پر) اور مدھیہ پردیش، بہار اور اتر پردیش میں مختلف نسلی امتزاج کے عروج کا سال قرار دیا جائے گا۔یہ جماعتیں برسوں سے اپنی علاقائی اور ذات پات کی بنیادیں مضبوط کرتی چلی آرہی ہیں اور اب اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
اندرا گاندھی نے کانگریسیوں سے کہا کہ وہ بدلتے ہوئے سیاسی حالات سے نمٹنے کے لیے خود کا جائزہ لیں اور ایک نئی حکمت عملی تیار کریں لیکن، پارٹی کے روایتی لیڈر شاید ایسا کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے 1968 کے اجلاس میں ایک طرف انہی ضدی، ہٹ دھرمی اور دبنگ جمود کو برقرر رکھنے کے خواہاں اور دوسری جانب نوجوان ترکوں (نوجوان لیڈران کو نوجوان ترک کے لقب سے نوازا جاتا ہے) کی بغاوت کے سبب ہی پارٹی کے اندر اختالافات ابھر کر سامنے آنے لگے۔
کنونشن میں اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ پارٹی کا زور غربت کے خاتمے پر ہونا چاہیے لیکن پارٹی کو اپنے طریقے سے چلانے والے لیڈروں نے محسوس کیا کہ اس کے بجائے پارٹی کی تنظیم نو پر زور دیا جانا چاہیے۔ اندرا گاندھی نے محسوس کیا کہ نکسل کسی دوسرے ملک کے ایجنٹ نہیں ہیں۔ وہ عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کر رہے تھے لیکن انہوں نے غلط طریقہ کا انتخاب کیا ہے۔
اندرا گاندھی نے کہا کہ پارٹی کو ان مسائل کی نشاندہی اور حل کرنا چاہیے لیکن اس کے برعکس پارٹی کے لیڈروں نے محسوس کیا کہ نکسلیوں پر قابو پانے کے لیے انہیں گرفتار کر کے قتل کر دینا چاہیے۔ اندرا گاندھی نے محسوس کیا کہ زمینی اصلاحات مسئلے کا حل ہو سکتی ہیں لیکن پارٹی رہنماؤں نے زمینداروں کا ساتھ دیا اور زمینی اصلاحات کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی مخالفت کی۔
اسی سال یہ بحث شروع ہوئی کہ ایک 22 سالہ اطالوی لڑکی نہرو-گاندھی خاندان میں دلہن بن کر آئی۔ وہ ایک شرمیلی لڑکی تھی، جو اپنے نئے گھر کے ماحول اور اندرا گاندھی کی شخصیت سے خوفزدہ تھی۔ اور دانستہ یا نادانستہ سونیا گاندھی نے ہندوستانی عوامی زندگی کو جاننا اور سمجھنا شروع کر دیا۔ ایک طرح سے وہ اندرا گاندھی سے ٹیوشن لینے لگی۔ کسی بھی متوسط طبقے کی اطالوی لڑکی کے لیے، ہندوستان کی پیچیدہ سیاست تو دور کی بات ، جس کا اطالوی سیاست سے بھی دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ اگر ان کے پاس کوئی انتخاب ہوتا تو وہ گھریلو خاتون بننے کو ترجیح دیتیں لیکن وہ ایک ایسے خاندان کی دلہن تھیں جو ہندوستانی سیاست کا مترادف بن چکا تھا۔
پچھلے 30 سالوں میں (یہ بات 2004 میں لکھی گئی تھی )، سونیا گاندھی نے 1959 اور 1971 کے انتخابات میں کانگریس کو تقسیم ہوتے دیکھا۔ انہوں نے دسمبر 1971 میں پاکستان کی شکست کے بعد اندرا گاندھی کے سیاسی قد کو بڑھتے ہوئے دیکھا (اور اٹل بہاری واجپائی نے تو انہیں درگا کا اوتار تک کہا تھا)۔ سونیا گاندھی نے جے پی تحریک کے دوران دیکھا تھا کہ کس طرح مکمل انقلاب کے نام پر انارکی پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کے نتائج پر بھی نظر ڈالی جب اندرا گاندھی کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا جسے دی اکانومسٹ نے غلط جگہ پر پارکنگ جیسا جرم قرار دیا تھا۔ وہ اس وقت بھی موجود تھیں جب اندرا گاندھی نے رجنی پٹیل، سدھارتھ شنکر رے اور بلاشبہ بیٹے سنجے گاندھی کی ترغیب کے باوجود استعفیٰ دیا۔ وہ اس بات کی بھی گواہ ہیں کہ کس طرح اندرا گاندھی نے اپنے ہی فیصلے پر اعتماد نہیں کیا اور اس کے اثرات کو بھگتنا پڑا۔ سونیا گاندھی بھی ان واقعات کی گواہ ہیں جب اپوزیشن نے اندرا گاندھی کی حکومت کا تختہ الٹنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا انتباہ دیا تھا اور اندرا گاندھی نے کس طرح ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔
سونیا گاندھی سیاست کے تمام اتار چڑھاؤ میں اپنی ساس کے ساتھ کھڑی رہیں، اس وقت بھی جب 1977 کے انتخابات میں شکست کھا گئی تھیں۔ انہوں نے اندرا گاندھی کی گرفتاری بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی اور شاہ کمیشن کی کارروائی کی بھی گواہ رہی۔ جنتا حکومت سونیا گاندھی کی آنکھوں کے سامنے گر گئی اور اندرا گاندھی اقتدار میں واپس آگئیں، ساتھ ہی انہوں نے خالصتان تحریک کو درپیش چیلنجوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اور آخر کار سونیا گاندھی نے اس ہولناک واقعہ کو دیکھا جب اندرا گاندھی کا جسم گولیوں سے چھلنی تھا، وہ اس کا سر اپنی گود میں لے کر ہسپتال لے گئیں۔ اس واقعے کے 7 سال بعد جب وہ اپنے شوہر کی لاش چنئی سے دہلی لائی تو تقدیر نے پھر کچھ ایسا ہی کیا۔
یہ یقینی طور پر وہ زندگی نہیں تھی جس کا اس نے خواب دیکھا تھا جب انہیں آکسفورڈ کے اس یونانی ریستوراں میں راجیو گاندھی سے پیار ہو گیا تھا لیکن تقدیر نے اسے ایک ایسے خاندان کا حصہ بنا دیا جس کی قسمت ہندوستان کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، چنانچہ انہوں نے حقیقت کو اپنا لیا اور ابتدائی ہچکچاہٹ کے ساتھ، انہوں نے اس حقیقت کے ساتھ زندگی گزارنے کا انتخاب کیا- ابتدا میں بڑی ہچکچاہٹ اور بعد میں خاندان اور ملک تئیں ایک اخلاقی ذمہ داری سمجھ کر قبول کیا۔
یہ ایک ایسے خاندان کی داستان ہے جس کی مثال ہندوستان کے کسی بھی دیگر خاندان میں نہیں ملتی اور اب بھی بہت سی پرتیں اور پیچیدگیاں ہیں جو آنے والے سالوں میں وقت کے ساتھ سامنے آئیں گی۔
(کمار کیتکر کی یہ کتاب پہلی بار 1998 میں اور پھر 2004 میں نظر ثانی شدہ ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی)