سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کو لے کر داخل سبھی عرضیوں پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے اکثریت کی بنیاد پر 2016 میں 500 روپے اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے کو آئینی ضرور قرار دیا ہے، لیکن اس میں نوٹ بندی کے فیصلے کو لے کر مرکزی حکومت پر سوال بھی اٹھائے ہیں۔
جسٹس ناگرتنا نے اکثریت کے نظریہ سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے الگ فیصلہ دیا ہے۔ جسٹس ناگرتنا آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 26(2) کے تحت مرکزی حکومت کی طاقتوں کے ایشو پر اکثریت کے فیصلے سے الگ تھیں۔
نوٹ بندی کا فیصلہ غیر قانونی:
جسٹس بی وی ناگرتنا نے نوٹ بندی کو غیر قانونی بتایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کا 8 نومبر کا نوٹ بندی کا فیصلہ غیر قانونی تھا۔ جسٹس ناگرتنا نے کہا کہ حکومت کے ذریعہ لیے گئے اس فیصلے کے تحت 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی سبھی سیریز کو چلن سے باہر کر دیا جانا ایک بے حد ہی سنگین موضوع ہے۔
آر بی آئی نے آزادانہ طریقے سے نہیں لیا کوئی فیصلہ:
جسٹس ناگرتنا نے مودی حکومت کے ذریعہ جس طرح سے نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا، اس کے طریقے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ مرکزی حکومت کے نوٹیفکیشن کے ذریعہ نہیں بلکہ بل کے ذریعہ ہونا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کی جسٹس نے کہا کہ اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے اسے پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جانا چاہیے تھا۔ اتنا ہی نہیں، انھوں نے کہا کہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے جو ریکارڈ پیش کیے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آر بی آئی نے آزادانہ طریقے سے کوئی فیصلہ نہیں لیا بلکہ سب کچھ مرکزی حکومت کی خواہش کے مطابق ہوا۔ نوٹ بندی کا فیصلہ صرف 24 گھنٹے میں لیا گیا۔
کرنسی کے سبھی سیریز پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی:
جسٹس ناگرتنا نے یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت کی تجویز پر ریزرو بینک کے ذریعہ دی گئی صلاح کو قانون کے مطابق دی گئی سفارش نہیں مانا جا سکتا۔ قانون میں آر بی آئی کو دی گئی طاقتوں کے مطابق کسی بھی کرنسی کی سبھی سیریز پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ سیکشن 26(2) کے تحت کسی بھی سیریز کا مطلب سبھی سیریز نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کی صفائی:
سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ نومبر 2016 میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو واپس لینے کا فیصلہ تبدیلی والی معاشی پالیسی کے اقدام کی سیریز میں ایک اہم قدم تھا اور یہ فیصلہ آر بی آئی کے ساتھ وسیع تبادلہ خیال کے بعد لیا گیا تھا۔
وزارت مالیات نے ایک حلف نامہ میں کہا کہ نوٹ بندی سوچ سمجھ کر لیا گیا ایک فیصلہ تھا۔ یہ آر بی آئی کے ساتھ طویل صلاح و مشورہ اور پیشگی تیاریوں کے بعد لیا گیا تھا۔ وزارت نے کہا کہ نوٹ بندی نقلی کرنسی، دہشت گردی کے فروغ، بلیک منی اور ٹیکس چوری کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک بڑی پالیسی کا حصہ تھا۔