امریکا کی جانب سے افغانستان میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے اعلان کو 5 ماہ گزر جانے کے بعد بھی القاعدہ نے تاحال ان کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی نئے سربراہ کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں اداراے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اگست کے اوائل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکی مسلح افواج نے افغان دارالحکومت کے اوپر پرواز کرنے والے ڈرون سے 2 میزائل ایمن الظواہری کی رہائش گاہ پر داغے جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگئے۔
تاہم ایمن الظواہری کے آڈیو یا ویڈیو پیغامات تاریخ کے بغیر نشر کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے، انہوں نے 2011 میں امریکی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی قیادت سنبھالی تھی۔
انسداد انتہا پسندی پروجیکٹ کے تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہنس جیکب شنڈلر نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ واقعی عجیب ہے، کوئی بھی گروہ ایک رہنما کی زیرِ قیادت ہی کام کرتا ہے، انہیں ایک ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو تمام چیزوں کو یکجا کر سکے‘۔
محققین رافیلو پنٹوچی اور کبیر تنیجا نے دسمبر کے شروع میں ویب سائٹ ’لا فیئر‘ پر لکھا کہ ’یقیناً ایسا ہوسکتا ہے کہ امریکا ایمن الظواہری کی موت کے بارے میں غلط ہو، تاہم جس اعتماد کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن نے ان کی ہلاکت کا اعلان کیا تھا اس سے اس بات کا امکان کم ہی معلوم ہوتا ہے‘۔
روپوش جانشین
ایک اور امکان یہ ہے کہ القاعدہ تاحال ایمن الظواہری کے ممکنہ جانشین سے رابطہ کرنے میں ناکام ہو جو سیف العدل یا ’انصاف کی تلوار‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ماضی میں ایمن الظواہری کا دایاں بازو سمجھے جاتے تھے۔
سیف العدل مصری اسپیشل فورسز کے ایک سابق لیفٹیننٹ کرنل ہیں جو 1980 کی دہائی میں جہاد کی جانب راغب ہوئے، مبصرین کا خیال ہے کہ وہ ایران میں موجود ہیں۔
ایران کے حکمران باضابطہ طور پر القاعدہ کی مخالفت کرتے ہیں لیکن مخالفین کی جانب سے بار بار ایران پر اس نیٹ ورک کے ساتھ تعاون اور اس کے رہنماؤں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
جیکب شنڈلر کے مطابق ’سیف العدل ایرانی حکومت کے لیے ایک اثاثہ بھی ہے، اپنے مفادات کے مطابق ایران اسے امریکا کے حوالے کرنے یا اسے مغرب پر حملہ کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر سکتا ہے‘۔
رافیلو پنٹوچی اور کبیر تنیجا کا خیال ہے کہ ’طالبان کے دباؤ کے سبب بھی القاعدہ نے ایمن الظواہری کی موت کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے‘۔
اگست میں طالبان نے محتاط الفاظ پر مبنی ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ایمن الظواہری کی افغانستان میں موجودگی کی تصدیق نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی ہلاکت کو تسلیم کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’طالبان کا ایمن الظواہری کی ہلاکت پر تبصرہ نہ کرنے کا فیصلہ القاعدہ کے ساتھ ان کے نازک مگر گہرے تعلقات برقرار رکھنے اور امریکا کے ساتھ اپنے معاہدے کی براہ راست خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ملکی دہشت گرد گروہ کی ملک میں موجودگی کی جانب توجہ مبذول نہ ہونے دینے کی کوشش بھی ہوسکتا ہے‘۔
یہ امکان بھی موجود ہے کہ سیف العدل کی موت واقع ہوچکی ہو یا پھر وہ اپنے پیشرو یا داعش گروپ کے 2 آخری رہنماؤں جیسی ہلاکت سے بچنے کے لیے روپوش ہوگئے ہوں جنہیں گزشتہ برس ہلاک کردیا گیا تھا۔
ایمن الظواہری نے القاعدہ کی قیادت سنبھالنے کے بعد اسامہ بن لادن جیسی کرشماتی قیادت یا ان کے اثر و رسوخ کی تقلید کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ القاعدہ میں اختیارات کی نچلے درجے پر منتقلی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
القاعدہ آج اس گروہ سے بہت مختلف صورت اختیار کرچکا ہے جس نے 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر حملے کیے تھے، اب اس کے پاس مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بکھرے ہوئے خود مختار دھڑے موجود ہیں جو مالی و انتظامی امور اور حکمت عملی کے لحاظ سے پہلے کی نسبت مرکزی قیادت پر بہت کم انحصار کرتے ہیں۔