ممبئی: ہندوستانی سینما کے لیے ایک بڑی شخصیت کے طور پر شمار کئے جانے والے کمال امروہی نے ناظرین کے دل و دماغ پر ایسے نقوش ثبت کئے جنہیں آج تک نہیں مٹایا جاسکا، کمال امروہی کی پیدائش 17 جنوری 1918 کو اُتر پردیش کے شہر امروہہ میں ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی،
ان کا اصلی نام سیّد امیر حیدر تھا اور پیار سے گھر والے ان کو ‘چندن’ کے نام سے پکارتے تھے۔ گھر میں سب سے کم عمر ہونے کی وجہ سے کمال امروہی بہت شرارتی، چنچل اور لاڈلے تھے۔
بچپن سے ہی کمال امروہی حُسن پرست تھے۔ چاہے قدرت کے حسین مناظر ہوں یا قدرت کا بنایا ہوا کوئی حسین چہرہ، وہ ہر طرح کے حُسن کے دلدادہ تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ پڑھائی لکھائی میں ان کا دل کم ہی لگتا تھا۔ بہتر تعلیم کے لیے انھیں دہرہ دون بھیجا گیا جہاں انھوں نے ہائی اسکول تک کی تعلیم مکمل کی۔ اسی دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل دیا۔ ہوا یوں کہ ان کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں طمانچہ رسید کر دیا۔غصہ سے بھرے کمال امروہی گھرچھوڑ کر لاہور بھاگ گئے۔
لاہور نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ انہوں نے بڑا آدمی بننے کا عزم کرلیا تھا۔ انہوں نے خوب محنت کی اور قدیم لسانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔ لاہور میں کمال امروہی کی ملاقات معروف نغمہ نواز اور اداکار کندن سہگل سے ہوئی۔ وہ کمال صاحب کی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں فلم میں کام دلانے کے لئے سہراب مودی کے پاس بمبئی لے گئے یہاں آکر وہ فلم انڈسٹری میں جدو جہد کرنے لگے۔
سہراب مودی نے اپنی شہرۂ آفاق تاریخی فلم ‘پُکار’ کی کہانی بھی سیّد امیر حیدر کمال سے لکھوائی۔ فلم پکار (1939) نے کامیابی اور شہرت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ چاروں طرف کمال کے نام کا ڈنکا بج گیا اور ”با ادب، باملاحظہ ہوشیار۔۔۔” کی آواز پوری فلم انڈسٹری میں گونجنے لگی۔ یہ فلم نسیم بانو اور چندرموہن کی اداکاری سے مزین تھی۔ انہوں نے اس فلم کے لئے چار گیت لکھے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کمال امروہی کا جادو فلموں میں چل گیا اور انہوں نے متعدد فلموں کے لئے کہانی اسکرپٹ اور ڈائیلاگ تحریر کئے۔
کمال امروہی ہندوستانی سینما کے لیے ایک بہت بڑی شخصیت کے روپ میں فلم ‘پکار’ سے اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔ اُن کو اپنے آپ پر بہت بھروسہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پہلی بار ایک قلمکار کے طور پر یہ شرط رکھی کہ ان کا نام فلم کے پردے پر الگ سے ایک فریم میں دیا جائے گا۔ اس طرح ایک کہانی کار اور ایک مکالمہ نگار کی الگ سے پہچان کرانے میں کمال امروہی نے پہل کی۔
فلمی دنیا کے لیے ان کی حیثیت کئی طرح سے قابل قدر ہے۔ انھوں نے ادیبوں کو ایک خاص، قابل احترام اور اہم مقام دلانے میں پہل کی۔ فلم ‘محل’ کی ہدایت اور کہانی لکھ کر انھوں نے ہندوستانی سنیما میں سسپنس فلموں کا آغاز کیا۔ اشوک کمار اور مدھوبالا کو نئے انداز میں پیش کرکے معیاری سینما کے لیے ایک خاص حیثیت بخشی۔ ‘آئے گا آنے والا۔۔۔ ‘ گیت ‘محل’ کے لیے گا کر لتا منگیشکر بھی ہندوستانی فلم سنگیت میں اپنا مقام بنا سکیں۔ اس سے حوصلہ پاکر کمال امروہی نے 1953 میں کمال پکچرس اور 1958 میں کمالستان اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔
فلم ‘پاکیزہ’ کمال امروہی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958 میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ بہترین ڈائیلاگ، موسیقی، نغمات اور میناکماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت اس فلم نے ناظرین کے دل و دماغ پر ایسے نقوش ثبت کئے، جنہیں آج تک محو نہیں کیا جاسکا۔ اس فلم کے نغموں میں اس قدر کشش ہے کہ آج بھی جب فلم ‘پاکیزہ’ کے نغمے کہیں سنائی دیتے ہیں تو لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اور لوگ ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ یہ فلم انڈسٹری کی کلاسک فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔
کمال امروہی نے جیلر، ہاری، بھروسہ، مذاق، پھول، شاہ جہاں، محل، دائرہ، دل اپنا اور پریت پرائی، مغل اعظم، پاکیزہ، شنکر حسین اور رضیہ سلطان جیسی فلموں کے لئے کہانی ‘ڈائیلاگ اور اسکرپٹ لکھی۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں فلموں کے لئے اپنی خدمات پیش نہیں کی، لیکن جن چنندہ فلموں میں انہوں نے کام کیا ‘پوری یکسوئی’ لگن اور جنون کے ساتھ کام کیا۔
یہ صحیح ہے کہ ان کے کام کرنے کی رفتار انتہائی سست ہوتی تھی، جس کے سبب ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ ‘رضیہ سلطان’ کی فلم سازی کی رفتار دھیمی ہونے کے سبب ہیمامالنی نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔ لیکن ان کے کام میں ان کی شخصیت کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔ اردو زبان و ادب کی تاریخ اور تہذیب کے شاہکار عطا کرنے والے اس فن کار نے 11 فروری 1993 کو حرکت قلب بند ہو جانے سے اِس جہاں فانی کو الوداع کہہ دیا۔