او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلیکس پر جمعے کے روز پاکستان اور انڈیا کے جوہری پروگرام پر مبنی فلم ‘مشن مجنوں’ ریلیز ہوئی ہے۔
انڈیا میں اس کی بازگشت کم ہی سنائی دے رہی ہے لیکن پاکستان میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسے ‘پروپیگنڈا فلم’ قرار دے کر مسترد کیا جا رہا ہے تاہم اسے بڑے پیمانے پر دیکھا بھی جا رہا ہے۔
تقریباً دو ہفتے قبل جب اس کا ٹریلر ریلیز ہوا تھا تو بھی صارفین نے اس کا مذاق اڑایا تھا لیکن انڈیا میں اس فلم کا موازنہ اداکارہ عالیہ بھٹ کی فلم ‘راضی’ سے کیا جا رہا ہے۔
اس کے بارے میں ‘مشن مجنوں’ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار سدھارتھ ملہوترا نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کسی اچھی فلم سے موازنہ بری بات نہیں ہے۔ دونوں فلمیں ایک ہی عہد پر مبنی ہیں۔
‘فلم کمپینین’ کے ساتھ ایک انٹرویو میں مشن مجنوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اداکار سدھارتھ نے کہا کہ ‘اگر لوگ کسی فلم کے لیے کوئی حوالہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو یہ بری بات نہیں ہے۔
‘یہ (راضی) ایک اچھی فلم ہے، ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ (موازنہ) کوئی خطرناک چیز ہے۔ ہاں، ٹریلر کو دیکھتے ہوئے بظاہر موجود عناصر ایک جیسے نظر آ سکتے ہیں۔’
فلم میں کیا ہے؟
‘مشن مجنوں’ پاکستان میں ایک انڈین جاسوس کی مہم کی کہانی ہے۔ اس فلم کا پلاٹ کچھ یوں بنایا گیا ہے کہ سنہ 1974 میں انڈیا نے کامیابی سے ایٹمی تجربات کر کے دنیا کو چونکا دیا۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو (راجت کپور) پریشان ہیں اور وہ آئی ایس آئی کے سربراہ مقصود عالم (شیشیر شرما) کے مشورے پر، پاکستان نے ہالینڈ میں مقیم ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان (میر سرور) کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اے کیو خان کو ایٹم بم بنانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور پاکستان اس کے سازوسامان کو بلیک مارکیٹ سے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انڈین خفیہ ادارے را کو جب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کچھ کرنے جا رہا ہے تو انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی (اوانتیکا آکیرکر) کی منظوری سے، وہ راولپنڈی میں اپنے خفیہ ایجنٹ امن دیپ سنگھ عرف طارق (سدھارتھ ملہوترا) کو مزید تفصیلات اور ایٹم بم کی سہولت کے ٹھکانے کے بارے میں مطلع کرتا ہے۔
طارق ایک درزی کے طور پر کام کر رہا ہے اور اس نے کامیابی کے ساتھ ایک نیک فطرت سادہ لوح شخص کی اپنی پہنچان بنا رکھی ہے۔ لہٰذا، کسی کو ذرا بھی شک نہیں ہے کہ وہ جاسوس ہے۔ اسے ایک نابینا لڑکی نسرین (رشمیکا مندانا) سے محبت ہو جاتی ہے اور دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ طارق نسرین کے چچا مومن (منوج بخشی) کی درزی کی دکان پر کام کرتا ہے اور انھیں اکثر پاکستانی فوج کے لیے کپڑے سلائی کرنے کا آرڈر ملتا ہے۔
یہ تو ایک خلاصہ ہے اور پوری کہانی تو آپ کو نیٹ فلکس پر فلم دیکھ کر ہی پتا چلے گی لیکن اس کہانی میں پاکستانیوں کی شکایتیں دراصل فلم میں بتائے گئے حقائق سے متعلق ہیں۔
پاکستان میں فلم پر تنقید
پاکستان میں نہ صرف فلم کو مضحکہ خیز اور پروپیگنڈا کہا جا رہا ہے بلکہ نیٹ فلیکس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور طرح طرح کے میمز شیئر کیے جا رہے ہیں۔
صحافی ہارون رشید نے لکھا: ‘میں مشن مجنوں دیکھ رہا ہوں اور بالی وڈ کو پاکستان کے وہم میں مبتلا دیکھ رہا ہوں۔ یہ شرمسار کن ہے۔ اس فلم میں ابھی تک انھوں نے جو کچھ کیا ہے وہ ‘پاکستان، پاکستان، پاکستان، پاکستان، جناب پاکستان، جناب پاکستان، پاکستان، پاکستان’ ہے۔ ایک بار پھر غیر ذمہ دار اور خطرناک فلم بنائی گئی ہے۔’
جبکہ فاطمہ نامی صارف نے مشن مجنوں کی اردو کی جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘جو لوگ اسے نہیں پڑھ سکتے ان کے لیے ٹرانسلٹریٹ کیا گیا ہے۔ ‘اپنے جوتے یہاں رکھیں کی جگہ ‘کیپ یور شوس حری’ لکھا گيا ہے۔ یہ نیٹ فلیکس پر ہے۔ فلم بنانے والے شرمسار ہوں۔ اس کی تصدیق کے لیے کسی اردو جاننے والے کی خدمت لی جا سکتی تھی۔’
اس کے ساتھ انھوں نے اس مسجد اور تختی کا سکرین شاٹ لگایا ہے۔
جبکہ فاطمہ سجاد شاہ نے لکھا کہ ‘میری پاکستان سٹڈیز کی کتاب سے زیادہ اگر تاریخ اور حقائق کو مسخ کرنے والی کوئی چیز ہے تو وہ مشن مجنوں ہے۔ یہ کس قدر کھلی اور وحشیانہ تحریف ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بالی وڈ پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لیے پراپیگنڈے میں اتنا گہرا چلا جاتا ہے۔’
معروف کاروباری سلیمان رضا نے فلموں میں مسلمانوں کی تصویر کشی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: مشن مجنوں پاکستان کے متعلق بالی وڈ کے جنون کی ایک واضح مثال ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مسلمان کی تصویر کشی کرتے ہیں، پوری مسلم کمیونٹی کو دقیانوسی بنا کر پیش ٹوپی پہنا ہوا، تسبیح لیے ہوئے اور رومال ڈالے پیش کرتے ہیں کہ یہ مسلمان ہے۔ بڑے ہو جاؤ یار!’
کئی لوگوں نے لکھا ہے کہ پاکستان میں لوگ مشن مجنوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔
ایمن نامی ایک صارف نے لکھا ‘اگر آپ پروپیگنڈہ فلم دکھانا چاہتے ہیں تو کم از کم اسے کسی تیسری فریق کی ویب سائٹ پر پیش کریں۔ اس طرح کی فلم نیٹ فلیکس پر نہ دکھائیں۔ ابھی یہ پاکستان میں نمبر ایک فلم ہے۔ لیکن کیوں؟’