ایک جانب کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی موسم کی تمام شدتیں برداشت کرتے ہوئے ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور نفرت کے خلاف اپنی ‘بھارت جوڑو یاترا’ مکمل کرنے کو ہیں تو دوسری جانب بر سر اقتدار جماعت بی جے پی کی کوشش ہے کہ کس طرح اقلیتوں کے ووٹوں کو تقسیم کیا جائے اور تیسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کی جائے۔
یوم جمہوریہ کی پریڈ میں جھانکیوں کے ذریعہ ایک مخصوص مذہب کی تشہیر اور مصر کے صدر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنا، اسی سلسلہ کی کڑی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم پسماندہ مسلمانوں کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری طرف آر ایس ایس کی جانب سے مسلم رہنماؤں سے ملاقاتیں کی جا رہی ہیں۔
خبر ہے کہ مسلم مفکرین اور علماء کے ایک وفد نے حال ہی میں آر ایس ایس کے ذمہ داروں سے ملاقات کی ہے۔ یہ مسلم لیڈران کی جانب سے اس طرح خاموشی سے کی گئی دوسری ملاقات ہے۔ یہ ملاقات گزشتہ 14 جنوری کو ہوئی اور حاضرین کے درمیان 3 گھنٹے تک مذاکرت ہوئے۔ اس ملاقات کے حوالہ سے مسلمانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے کیونکہ نہ تو اس ملاقات سے پہلے اور نہ ہی بعد میں وفد کے کسی رکن کی جانب سے عوامی طور پر کوئی تفصیل دی گئی۔
کئی میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس ملاقات کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حال ہی میں دئے گئے انٹرویو، وارانسی کی گیانواپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد تنازعات، گئوکشی، موب لنچنگ، دونوں فرقوں کی جانب سے دئے جانے والے متنازعہ بیانات اور لفظ کافر کا استعمال نہیں کرنے کے سلسلہ میں بات چیت کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق اس ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پہلے باہمی ہم آہنگی والے موضوعات پر پیش قدمی کی جائے گی اور جلد ہی دونوں فریقین پھر سے ملاقات کریں گے۔ دہلی کے دریا گنج میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کی رہائش پر منعقد ہونے والی اس ملاقات میں آر ایس ایس کی جانب سے کرشن گوپال، رام لال اور اندریش کمار نے شرکت کی۔
دوسری طرف، مسلمانوں کی جانب سے نجیب جنگ کے علاوہ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی، صنعت کار اور سماجی خدمات گار سعید شیروانی، جماعت اسلامی ہند سے ملک محتشم خان، جمعیۃ علما ہند کے محمود مدنی دھڑے سے مولانا نیاز فاروقی، جمعیۃ کے ارشد مدنی دھڑے سے فضل ارحمان قاسمی، اجمیر شریف سے سلمان چشتی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسلامک اسٹڈیز کے ماہرین سمیت دونوں طرف کے تقریباً 20 افراد موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق، شاہد صدیقی نے بتایا کہ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں فریقین ہم آہنگی والے موضوعات پر آگے بڑھیں گے تاکہ سماج میں بھائی چارہ قائم ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ جلد ہی دونوں فریقین کی جانب سے ایک بڑی میٹنگ کا انعقاد ہوگا، جس میں متعدد اہم موضوعات پر بات چیت ہوگی۔ اس طرح کی میٹنگیں ملک کے مختلف حصوں میں منعقد کرنے پر بحث کی گئی۔
شاہد صدیقی نے کہا کہ مسلم فریق نے سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ انٹرویو کا مسئلہ اٹھایا تھا، جس کے جواب میں سنگھ لیڈروں نے پانچ جنیہ میں شائع ہندی انٹرویو پڑھ کر سنایا۔ میٹنگ میں شریک ایک سنگھ لیڈر نے کہا کہ پانچ جنیہ کا انٹرویو سننے کے بعد مسلم فریق کے لوگوں نے بھی قبول کیا کہ سنگھ سربراہ کے انٹرویو کو غلط تناظر میں توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ جب سنگھ نے میٹنگ میں وارانسی اور متھرا کا مسئلہ اٹھایا تو مسلم فریق کی طرف سے صاف کہا گیا کہ یہ دونوں مسائل عدالت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔
موب لنچنگ کا مسئلہ مسلم فریق نے اٹھایا تھا جسے آر ایس ایس لیڈروں نے بھی غلط قرار دیا۔ دوسری طرف جب سنگھ کے لیڈروں نے ہندو جذبات کا احترام کرتے ہوئے گائے کے ذبیحہ کا مسئلہ اٹھایا تو مسلمانوں کی طرف سے کہا گیا کہ اگر حکومت پورے ملک میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کا قانون بنانا چاہتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ اس کی حمایت کریں گے۔ اجلاس میں لفظ کافر کے استعمال کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ ذرائع کے مطابق سنگھ لیڈروں کی جانب سے کہا گیا کہ قوم سب کو متحد کرتی ہے۔ ہر طبقہ میں مختلف فرقے ہوتے ہیں تو جو شخص کسی بھی شکل میں خدا کو مانتا ہے تو وہ کافر کیسے کہلائے گا؟ جس پر مسلم فریق حتیٰ کہ مسلم علمائے کرام نے بھی تسلیم کیا کہ ہندوستان اور ہندوؤں کے تناظر میں کافر کا لفظ استعمال کرنا سراسر غلط اور نامناسب ہے اور اسے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
شاہد صدیقی نے مزید کہا کہ ملاقات میں بہت ہی خوشگوار ماحول میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسے جمود کو توڑنے والی میٹنگ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ دونوں برادریوں کے درمیان ایک کھڑکی کھولی جائے اور انہیں امید ہے کہ مزید دروازے کھلیں گے۔ خیال رہے کہ سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ سال 22 اگست کو بھی نئی دہلی میں مسلم دانشوروں کے ایک حصے سے مسلم کمیونٹی کے ساتھ رابطے اور بات چیت کو بڑھانے کی مشق کے طور پر ملاقات کی تھی اور اس سال 14 جنوری کو ہونے والی یہ ملاقات اسی کا تسلسل تھی۔ اس مہم کے تحت آنے والے دنوں میں اس طرح کی کئی اور میٹنگیں منعقد کی جائیں گی۔