انڈیا کی ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے ایک حالیہ بیان کی وجہ سے انھیں سوشل میڈیا پر ہندوؤں کی جانب سے ہی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ذات پات کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیا ہے
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ذات پات کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ‘ذات پات بھگوان نے نہیں بلکہ پنڈتوں نے بنائی، جو غلط تھا۔’
انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق موہن بھاگوت نے اتوار کو ممبئی میں منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ ‘ہماری معاشرے کے تئیں بھی ذمہ داری ہے، جب ہر کام معاشرے کے لیے ہوتا ہے تو کوئی اونچا، کوئی نیچا یا کوئی مختلف کیسے ہو گیا؟ بھگوان نے ہمیشہ کہا ہے کہ میرے لیے سب ایک ہیں۔ ان میں کوئی ذات، ورن (ذات پات پر مبنی ایک قسم کی درجہ بندی) نہیں لیکن پنڈتوں نے درجے بنا لیے، جوغلط تھا۔’
سوشل میڈیا پر ردعمل
انڈیا میں سوشل میڈیا اور خاص کر ٹوئٹر پر کئی گھنٹوں تک موہن بھاگوت کا نام پہلے نمبر پر ٹرینڈ کرتا رہا۔
آر ایس ایس سربراہ کے اس بیان کو بعض حلقے ہندو مخالف کہہ رہے ہیں تو بعض اس کی پزیرائی بھی کر رہے ہیں جبکہ ایک حلقہ اسے انتخابی مہم کہہ رہا ہے۔
ونے شیل نے موہن بھاگوت کے بیان کے حوالے سے کئی سوالات پوچھے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ ‘موہن بھاگوت جی کا بیان پڑھیے۔ اس کے بعد کیا اب ذات پر مبنی تعصبات کو دور کرنے کے لیے آر ایس ایس استحصال کے شکار لوگوں کے لیے ریزرویشن کی حمایت کرے گا، سماج پر مبنی مردم شماری کرائے گا، بین الذات شادی کی حمایت کرے گا، عزت کے نام پر قتل کو روکنے کے لیے مہم چلائے گا؟’
صحافی شبھم شکلا نے لکھا کہ ووٹ بینک کے لیے برہمنوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
سونالی مشرا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘دھرم (مذہب/دین) ہمیں موہن بھاگوت جی نہیں بلکہ راویت کے ملنے والے گرو سکھائیں گے۔ آر ایس ایس ایک کمیونسٹ اور بائیں بازو کے طور پر کام کرنے لگی ہے۔’
انجینیئر درگیش پانڈے نے لکھا کہ ‘موہن بھاگوت کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔۔۔ انھیں کسی پاگل خانے میں داخل کراؤ۔ اپنی سیاست کے لیے وہ برہمنوں کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ برہمن، آر ایس ایس جیسی جعلی تنظیموں سے دور رہیں۔’
موہن بھاگوت کے اس بیان کے بعد سماج وادی پارٹی کے رہنما اور رکن اسمبلی سوامی پرساد موریہ نے ٹویٹس میں کہا کہ ‘ذات پات کا نظام پنڈتوں (برہمنوں) نے بنایا تھا، یہ کہہ کر آر ایس ایس کے سربراہ شری بھاگوت نے مذہب کی آڑ میں خواتین، قبائلیوں، دلتوں اور پسماندہ لوگوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ان نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں اور منافقوں کو بے نقاب کیا۔’
انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ‘اگر یہ بیان مجبوری کی وجہ سے نہیں تو پھر ہمت دکھا کر مرکزی حکومت سے رام چرتر مانس سے ذات پات پر مبنی الفاظ کا استعمال کر کے نیچ، ادھم (گھٹیا) کہنے، خواتین، قبائلیوں، دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنانے اور تذلیل کرنے والے تبصروں کو ہٹائیں۔ صرف بیانات سے کام نہیں چلے گا۔’
موہن بھاگوت کون ہیں؟
موہن بھاگوت انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں 11 ستمبر سنہ 1950 میں پیدا ہوئے۔ وہ ہندو تنظیم آر ایس ایس کے چھٹے سرسنگھ چالک (سربراہ) ہیں۔ انھوں نے کے ایس سودرشن کے بعد سنہ 2009 میں یہ ذمہ داری اٹھائی۔
ان کے والد بھی آر ایس ایس کے رکن تھے جبکہ والدہ بھی آر ایس ایس کی خواتین ونگ کی رکن تھیں۔
سنہ 2021 میں انھوں نے ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت کی تھی اور اس کے دوبارہ الحاق کی بات کہی تھی اور کہا تھا کہ تقسیم کے درد کو دور کرنے کے لیے اس کا الٹنا ضروری ہے۔
انھوں نے گذشتہ سال ملک میں فیملی پلاننگ کے حق میں بات کہی تھی اور حکومت سے ملک میں آبادی کے تناسب میں توازن پیدا کرنے کی بات کی تھی۔
حالیہ دنوں میں موہن بھاگوت کو ہندو سماج کے ایک حلقے کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ گذشتہ ماہ انھوں نے انڈیا کی معروف رزمیہ ‘مہا بھارت’ کے حوالے سے ایک بات کہی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی۔
انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہندو تہذیب میں روایتی طور پر ایل جی بی ٹی کیو برادری کو تسلیم کیا گیا ہے۔
انھوں نے ‘مہا بھارت’ کے دو مقدس ہندو کرداروں کو ہم جنس پرست کہا تھا۔ جس کے بعد ایک طبقے نے سوشل میڈیا پر ‘بھاگوت معافی مانگو’ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ انھیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کم از کم دو جگہوں سے ان کے خلاف خلاف ایف آئی آر درج کراوائی تھی۔
یاد رہے کہ حال ہی موہن بھاگوت مسلمانوں کے حوالے سے ایک بیان کے بعد بھی زیر بحث رہے تھے۔
انھوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو یہ ذہنیت چھوڑ دینی چاہیے کہ انھوں نے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ اس کے جواب میں رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے کہا تھا کہ مسلمان صرف مساوی حقوق کے خواہاں ہیں۔