ترکیہ اور شام میں آنے والے شدید زلزلے کے تقریباً 100 گھنٹے بعد جمعہ کے روز بھی امدادی کارکن ملبہ ہٹا رہے ہیں، ایک صدی کے دوران خطے میں آنے والی بدترین آفات میں سے ایک میں کم از کم 21 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے امداد کی پہلی ترسیل جمعرات کو شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں تک پہنچی لیکن تین روز گزر جانے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں جسے ماہرین جان بچانے کے لیے ایک اہم وقت سمجھتے ہیں۔
سخت سردی نے دونوں ممالک میں تلاشی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال، تاہم تباہی کے 80 گھنٹے بعد جنوبی ترکیہ کے شہر انتاکیا میں 16 سالہ میلڈا اتاس زندہ پائی گئیں۔
7.8 شدت کے زلزلے نے پیر کے روز اس وقت خطے کو لرزا دیا جب لوگ پر سکون نیند سو رہے تھے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریئسس اور اقوامِ متحدہ کی انسانی ہمدردی کی سربراہ مارٹن گرفتھ سمیت امدادی حکام متاثرہ خطے کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی صدر مرجانا سپولجارک نے کہا کہ وہ حلب پہنچ چکی ہیں، کئی برسوں سے شدید لڑائی کا سامنا کرنے والی کمیونٹیز اب زلزلے کی سختی سے دوچار ہیں، جیسے ہی یہ المناک سانحہ سامنے آیا لوگوں کی مایوس کن حالت زار پر توجہ دی جانی چاہیے۔
باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں امداد کی ترسیل
باب الحوا کراسنگ کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ امدادی قافلے نے باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی شام میں ترکیہ کی سرحد عبور کی، یہ زلزلے کے بعد اس علاقے میں پہلی ترسیل ہے۔
الحوا کراسنگ شامی حکومتی فورسز کے زیر کنٹرول علاقوں سے گزرے بغیر اقوام متحدہ کی امداد یہاں کے شہریوں تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
ایک دہائی کی خانہ جنگی، شامی۔روسی فضائی بمباری سے یہاں کے ہسپتال پہلے ہی تباہ، معیشت برباد ہوچکی ہے جبکہ بجلی، ایندھن اور پانی کی قلت بھی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ ترکیہ اور شام کے درمیان سرحد پار انسانی امداد کے نئے پوائنٹس کھولنے کی اجازت دے۔
باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے 40 لاکھ افراد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے تقریباً ایک دہائی قبل اختیار کردہ امدادی کارروائی کے ایک حصے کے طور پر باب الحوا کراسنگ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
انتہائی سرد موسم
زلزلے کے مرکز کے قریب واقع ترکیہ کے شہر غازی انتیپ میں درجہ حرارت جمعہ کی صبح منفی تین ڈگری سیلسیس (26 ڈگری فارن ہائیٹ) تک گر گیا۔
سردی کے باوجود ہزاروں خاندانوں کو گاڑیوں اور عارضی خیموں میں رات گزارنی پڑی، جن میں سے بہت لوگ خوفزدہ یا ان کے گھروں میں واپس جانے پر پابندی ہے۔
والدین اپنے بچوں کو کمبل میں اٹھائے شہر کی سڑکوں پر چلتے رہے کیونکہ یہ خیمے میں بیٹھنے سے زیادہ گرم تھا۔
جم، مساجد، اسکول اور کچھ اسٹورز رات کو کھل گئے تھے لیکن بستروں کی کمی ہے اور ہزاروں لوگ حرارت حاصل کرنے کے لیے گاڑیاں اسٹارٹ کر کے اس میں راتیں گزارتے ہیں۔
پیر کا زلزلہ 1939 کے بعد ترکیہ میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا، جب مشرقی صوبہ ارزنجان میں 33 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حکام اور طبی ماہرین نے بتایا کہ پیر کے زلزلے سے ترکیہ میں 17 ہزار 674 اور شام میں 3 ہزار 377 افراد ہلاک ہوئے، جس سے اموات کی تصدیق شدہ مجموعی تعداد 21 ہزار 51 ہوگئی ہے جبکہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہے گا۔
حکومت کی تباہی سے نمٹنے کی کوششوں پر شہری برہم
سب سے متاثرہ صوبہ ادیامان کے ایک شہری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ زلزلے سے نہیں مرے انہیں سردی میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
متاثرہ علاقے کے دورے کے موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی تسلیم کیا تھا کہ اس آفت سے نمٹنے میں حکومت سے ’کوتاہیاں‘ ہوئی ہیں۔