جرمنی کی وفاقی، ریاستی اور مقامی حکومتوں کے مابین پناہ گزینوں سے متعلق اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ ماہرین کے مطابق اس سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ جرمنی نے سن 2022 میں بارہ لاکھ سے زائد افراد کو پناہ دی تھی۔
جمعرات کے روز وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے مزید وفاقی املاک فراہم کرنے کی پیش کش کی، تعاون کے لیے ایک نیا ورکنگ اسٹرکچر تجویز کیا اور موسم بہار میں ایک اور اجلاس منعقد کرنے کی تجویز بھی دی۔
تاہم انہوں نے وفاقی جرمن صوبوں، شہروں اور بلدیات کے لیے مزید مالی امداد کی پیش کش نہیں کی اور اس بات پر زور دیا کہ وفاقی حکومت اس سال پہلے ہی 2.75 ارب یورو فراہم کرنے کا وعدہ کر چکی ہے۔
اس فیصلے کے مثبت نتائج نہ نکلے۔ برلن منعقدہ اس سمٹ کے بعد جرمن ریاست ہیسے کے وزیر داخلہ پیٹر بیوتھ کا کہنا تھا کہ ’ملک کا ماحول خراب‘ ہونے کا خطرہ ہے۔
جرمن بلدیاتی اداروں کی تنظیم کے سربراہ رائنہارڈ زاگر نے اجلاس کو مایوس کن قرار دیا اور چانسلر اولاف شولس کی عدم شرکت پر شدید تنقید کی۔ زاگر کا کہنا تھا، ’’ہمیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے۔‘‘
سب کے لیے مشکل وقت
شہر بیلےفَیلڈ کے میئر پٹ کلاؤزن سے پوچھا گیا کہ ان کا شہر یوکرین کی جنگ کے سبب آنے والے مہاجرین سے کیسے نمٹ رہا ہے، تو وہ مطمئن دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل صورت حال سمٹ میں دکھائی دینے والے موڈ سے بہتر ہے۔
جرمنی کے مغربی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں واقع اس شہر میں تقریباﹰ تین لاکھ 40 ہزار باشندے رہتے ہیں، جن میں چار ہزار یوکرینی مہاجرین بھی شامل ہیں۔ کلاؤزن کا کہنا تھا، ’’بیلےفَیلڈ جیسا بڑا شہر ایسی صورت حال کا آسانی سے سامنا کر سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ان پناہ گزینوں میں سے نصف سے زیادہ اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اب کسی کو بھی اسکولوں میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکنے کی ضرورت نہیں۔ کلاؤزن نے یہ بھی بتایا کہ یوکرینی مہاجرین کے سبھی بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز اور اسکولوں میں داخلہ بھی مل چکا ہے۔ ’’بنیادی طور پر نظام نے سبھی کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور انہیں جگہ فراہم کی ہے۔ پہلے آنے والے سبھی مہاجرین کو نوکریاں مل چکی ہیں۔‘‘ کلاؤزن کے مطابق زیادہ تر پناہ گزین آباد ہو کر اپنی زندگیوں کے ساتھ آگے بڑھ چکے ہیں۔
جرمنی میں قریب 11 ہزار شہر اور قصبے ہیں۔ ان میں سے صرف چند کا تجربہ ہی اس معاملے میں بیلےفَیلڈ کی طرح مثبت ہے۔ سن 2022 میں یوکرین کے دس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کے علاوہ تقریباﹰ دو لاکھ 44 ہزار پناہ گزین شام، افغانستان، ترکی اور عراق سے بھی جرمنی آئے۔
صرف رہائش گاہوں کی کمی ہی نہیں
جنوبی جرمن صوبے باویریا کے سوا لاکھ سے زائد آبادی والے علاقے ملٹن برگ میں گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر ژینس مارکو شیرف کا اندازہ ہے کہ انہیں سن 2015 میں درپیش مہاجرین کے بحران کی نسبت اب کی بار زیادہ افراد کو پناہ دینا پڑی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام بلدیاتی اداروں پر حد سے زیادہ بوجھ ہے اور وہ نظام پر مزید بوجھ ڈالنے کا جواز پیش نہیں کر سکتے۔
ی مقامی حکومت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسم خزاں کے بعد سے اس چھوٹے سے قصبے کو ہر ہفتے پناہ گزینوں کو رہائش دینے کے لیے گھر کرائے پر لینا پڑ رہے ہیں۔ تاہم اب بھی رہائش کے متلاشی افراد کی طویل فہرست انتظار میں ہے، جس کی وجہ سے پناہ گزینوں کو طویل عرصے تک عارضی قیام گاہوں میں رکنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
شہر کو درپیش صورت حال کی روشنی میں شیرف نے وفاقی اور ریاستی حکومتوں سے ’امیگریشن کو محدود‘ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے آخری سربراہی اجلاس میں بھی اسی بات پر اتفاق کیا تھا۔ یورپی یونین نے فیصلہ کیا تھا کہ سرحدوں پر سختی کی جائے گی اور جن لوگوں کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، انہیں ملک بدر کیا جائے گا۔ تاہم اس فیصلے سے یوکرینی شہری متاثر نہیں ہوں گے کیوں کہ انہیں پناہ کی درخواست جمع کرانے کے عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
حالیہ عرصے کے دوران جرمنی آنے والے دیگر پناہ گزینوں کے حوالے سے دیگر خدشات بھی موجود ہیں۔ سماجی انضمام صرف رہنے کے لیے جگہ تلاش کرنے ہی کا نام نہیں ہے۔
جرمنی کے جنوب میں واقع ایک قصبے لِنڈاؤ میں وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں، صرف پناہ گزینوں ہی کے لیے نہیں بلکہ مقامی شہریوں کے لیے بھی۔ مقامی حکام کے مطابق، ’’جب پناہ گزینوں کو مناسب طریقے سے رہائش نہیں دی جاتی اور ان کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی، اساتذہ اپنی ذمہ داریاں مناسب طریقے سے ادا نہیں کر سکتے، چائلڈ کیئر کی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے، اسکولوں یا سپورٹس کلبوں کے لیے جمنازیم دستیاب نہیں ہوتے۔‘‘
جھیل کونسٹانس کے کنارے واقع اس خوبصورت قصبے کی آبادی تقریبا 81 ہزار ہے اور یہ اپنی تشہیر ’جنت کے بہت قریب‘ کے سلوگن سے کرتا ہے۔ یہ قصبہ ان بہت سے بلدیاتی علاقوں میں سے ایک ہے، جو کئی ہفتوں سے وفاقی حکومت سے فوری طور پر مزید مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے وفاقی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا، ’’ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ جرمن بنڈس ٹاگ سے اپنے خطاب میں انہوں نے یقین دلایا کہ گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی ریاستی اور مقامی حکومتوں کو اربوں یورو مہیا کیے جائیں گے تاکہ نئے آنے والے پناہ گزینوں کی دیکھ بھال یقینی بنائی جا سکے۔
تاہم چانسلر شولس کوئی ٹھوس وعدہ کرنے سے گریزاں دکھائی دیے۔ دریں اثنا وفاقی ریاستیں اور شہر مزید افراد کو پناہ دینے کے بارے میں پریشان دکھائی دیے۔
ہانیس شامان ہِلڈسہائم یونیورسٹی میں مائیگریشن پالیسی کے پروفیسر ہیں۔ ان کے مطابق پناہ گزینوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے کے حوالے سے زیادہ تر مسئلہ بلدیات کے تجربے کا ہے۔
شامان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جن شہروں نے سن 2015 میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے انفراسٹرکچر بنایا اور اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا تھا، وہ موجودہ بحران سے نمٹنے کی پوزیشن میں ہیں۔‘‘
جرمنی کے شمالی شہر ہینوور کے میئر بیلیٹ اونے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یوکرین پر حملہ شروع ہونے کے بعد ہم چند دنوں کے اندر اندر تجارتی نمائش گاہوں میں استقبالیہ مراکز بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔‘‘
انہوں نے موجودہ صورت حال کو ’چیلنجنگ‘ قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا، ”فی الحال استعداد بڑھانے کے لیے مسلسل کام کرنے اور شہری انتظامیہ کے مختلف اداروں کے مابین مضبوط تعاون کے ذریعے اس سے نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘
بڑی رکاوٹیں بدستور موجود
سن 2022 میں وفاقی حکومت نے یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے چار ہزار اضافی اپارٹمنٹس فراہم کیے۔ تاہم ان میں سے صرف دو تہائی میں رہائش فراہم کی گئی۔ باقی عمارتیں ایسی ہیں جو طویل عرصے سے خالی پڑی تھیں اور ان میں بجلی اور پانی کی سہولیات کی کمی تھی۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں وہاں تمام سہولتیں مہیا کر دی جائیں گی۔
گرین پارٹی، جو مرکز میں ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت میں ہے، نے پناہ گزینوں کے لیے نجی ہاؤسنگ مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنانے کی تجویز دی ہے۔ وفاقی پارلیمان میں پارٹی کی مائیگریشن پالیسی کے ترجمان فیلیز پولات نے ایک قانون میں تبدیلی کی تجویز پیش کی ہے، جو زیادہ تر مہاجرین کو براہ راست نجی مکانات میں رہائش اختیار کرنے سے روکتا ہے۔
اس وقت دیگر پناہ گزینوں کے برعکس یوکرینی مہاجرین جرمنی آ کر اپنی مرضی سے کہیں بھی اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے پاس رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ دیگر ممالک کے پناہ گزینوں کو طویل عرصے تک مہاجرین کے لیے قائم کردہ مراکز ہی میں رہنا پڑتا ہے۔ پولات نے جرمن پبلک براڈکاسٹر ڈوئچ لینڈ فُنک کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے قریب 30 فیصد پناہ گزینوں کے رشتہ دار بھی پہلے ہی سے جرمنی میں موجود ہیں۔
ملٹن برگ میں اس تجویز پر اتفاق رائے موجود ہے۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اس بات کا ثبوت ہونا چاہیے کہ متعلقہ رشتہ دار یا دوست کے پاس رہائش فراہم کرنے کے لیے مناسب جگہ بھی موجود ہو۔
بیلےفَیلڈ کے میئر کلاؤزن کے مطابق یوکرینی اور دیگر مہاجرین کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کے لیے صرف رہائش ہی نہیں بلکہ کئی دیگر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’فرسٹ اور سیکنڈ کلاس سسٹم بنانا احمقانہ بات ہے۔ ہمیں اپنے سماجی نظام کے ساتھ ساتھ تعلیم اور انضمام کے مواقع کی فراہمی کو بھی جرمنی آنے والے ہر شخص کے لیے یقینی بنانا چاہیے۔‘‘
ان کے خیال میں اس میں پناہ گزینوں پر طویل مدت کے لیے کام کرنے پر عائد پابندی ختم کرنا چاہیے اور پناہ کی درخواستیں نمٹانے کا طویل طریقہ کار بھی بہتر بنانا چاہیے۔
جرمنی کے دیگر شہروں کی طرح بیلےفَیلڈ میں بھی ہنر مند افراد کی کمی ہے۔ کلاؤزن کے مطابق پناہ گزینوں کے جلد سماجی انضمام اور انہیں پیشہ وارانہ تربیت دینے میں سب ہی کا فائدہ ہے۔