دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث لوگوں میں خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ان کی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق آرٹی فیشل انٹیلیجنس دنیا بھر میں 30 کروڑ ملازمین کی جگہ لے سکتی ہے۔
امریکی سرمایہ کاری بینک گولڈمین ساکس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی سطح پر 18 فیصد کام کمپیوٹرائزڈ ہو سکتا ہے، جس کے اثرات ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے مقابلے ترقی یافتہ معیشتوں میں زیادہ گہرے ہوسکتے ہیں۔
معاشی ماہرین نے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت سے انتظامی کارکنان اور وکلاء سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
بینک گولڈمین ساکس کے اندازے کے مطابق امریکا اور یورپ میں دوتہائی ملازمتیں اے آئی ٹیکنالوجی کی زد پر ہیں۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ افرادی قوت پر اے آئی ٹیکنالوجی سے مرتب ہونے والے اثرات بہت زیادہ نمایاں ہو سکتے ہیں، مگر بیشتر ملازمتیں اور انڈسٹریز جزوی طور پر متاثر ہوں گی۔
روزگار کے مواقع
ایک جانب جہاں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے نوکریاں خطرے میں ہیں وہیں نئے مواقع اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق عالمی سطح پر تیار ہونے والی اشیا اور خدمات میں 7 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔
برطانوی حکومت اے آئی میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے معیشت میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا’۔
ٹیکنالوجی سیکرٹری مچل ڈونیلان نے اخبار ’دا سن‘ کو بتایا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت بالکل ویسے کام کرے جیسا ہم کرتے ہیں اور ہماری نوکریاں ختم کرنے کے بجائے اس میں آسانی پیدا کرے‘۔
رپورٹ میں میں بتایا گیا کہ مصنوعی ذہانت کے اثرات مختلف شعبوں میں مختلف ہوں گے، انتظامی نوعیت کے امور میں 46 فیصد کام اور قانونی پیشوں میں 44فیصد کام خودکار ہو سکتے ہیں لیکن تعمیراتی کام میں صرف 6فیصد جبکہ دیکھ بھال (مینٹینینس) کے شعبے میں چار فیصد کام خود کار ہوں گے۔
آکسفرڈ مارٹن سکول میں ورک ڈائریکٹر کارل بینیڈکٹ فری کا کہنا ہے کہ مستقبل میں صحافیوں کو زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح اے آئی بہتر انداز میں مضامین اور آرٹیکلز لکھ سکتا ہے، ’لہٰذا صحافیوں کو زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے اجرت میں کمی آئے گی۔‘