قم المقدسہ، مدرسہ امام خمینیؒ کے شہید صدر ہال میں انہدام جنت البقیع کے ۱۰۰ سال مکمل ہونے پر تحریر پوسٹ کے زیر اہتمام ایک انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف مقررین نے آل سعود کے مظالم کے خلاف اپنی آوازیں بلند کیں اور جنت البقیع کی تعمیر کا مطالبہ کیا،
ساتھ ہی گذشتہ ۱۰۰ سال کے نشیب و فراز کا تذکرہ کیا، شعرائے کرام نے بھی بقیع کے حوالے سے اشعار پیش کئے، حجۃ الاسلام سید عامر عباس عابدی نوگانوی نے جنت البقیع کے انہدام کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں اشعار پیش کئے۔
اس پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جسے مولانا سید فرزان حیدر نے بہترین انداز میں انجام دیا، نظامت کے فرائض حجۃ الاسلام والمسلمین سید حیدر عباس زیدی نے انجام دیئے،
تلاوت کے بعد جنت البقیع کے حوالے سے رہبر معظم کے بیان کو نشر کیا گیا اور اس کے بعد البقیع آرگنائزیشن کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید محبوب مہدی عابدی نجفی نے ایک ویڈیو کے ذریعہ حاضرین کے نام ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہا: ہماری آرگنائزیشن نے بقیع کے سلسلے میں اپنی آواز اقوام متحدہ تک پہنچائی ہے، اقوام متحدہ کی وبسائٹ پر بقیع کی تعمیر کے سلسلے میں ہمارے مطالبات موجود ہیں۔
انہوں نے پوری دنیا میں جنت البقیع کی تعمیر کے سلسلے میں عالمی مہم چلانے پر زور دیا اور کہا: مومنین کے لیے ضروری ہے کہ جنت البقیع کے سلسلے میں مجلس، احتجاج، کانفرنس اور مختلف تحریکیں چلائیں اور اہلبیت علیہم السّلام کی مظلومیت کو دنیا کو بتائیں، اور آئمہ بقیع کے کارناموں کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان ذوات مقدسہ کا تعارف کرائیں، اس طرح کی کانفرنس منعقد ہونا ضروری ہے تا کہ بقیع کا پیغام پہنچ سکے۔
کانفرنس کے پہلے خطیب حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ حسین غیب غلامی الھرساوی نے نجدیوں کے ظلم و ستم اور کی تاریخ بیان کرتے ہوئے جنت البقیع کے انہدام کی مفصل تاریخ اور اس کے انہدام کے پیچھے نجدیوں اور وہابیوں کے اسباب و عوامل اور مذموم اہداف کی جانب اشارہ کیا اور کہا: جنت البقیع کے انہدام کے پیچھے صرف مادی عوامل تھے، کسی طرح کے دینی عقائد مثلاً قبروں کی پرستش وغیرہ وجہ نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ گھناؤنا اقدام کیا گیا ہو، بلکہ صرف اور صرف مادی عوامل تھے کہ وہاں سے قیمتی اشیاء کو نکالا جائے اور اسے بازاروں میں بیچا جائے اور معاشی مشکلات سے نجات پیدا کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا: محمد بن عبد الوہاب ایک نالائق عالم تھا اور ایک منفور شخص تھا اور اس کی علمیت بھی ثابت نہیں ہے۔
کانفرنس کے دوسرے خطیب حجۃ الاسلام والمسلمین علی اکبر عالمیان نے حُضّار سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اگر خانہ کعبہ پر حملے کی تاریخ اور اس کے پیچھے اہداف و مقاصد کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جو ہدف کعبے کو مسمار کرنے کا تھا بالکل وہی ہدف جنت البقیع کے انہدام کا بھی تھا، ابرہہ کا مقصد تھا کہ غلبہ اور قدرت حاصل کی جائے اور نجدیوں اور آل سعود کا بھی مقصد یہی تھا کہ قدرت و طاقت حاصل کی جائے۔
اس پروگرام کے تیسرے خطیب حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید محمد حسن رضوی نے جنت البقیع کی تعمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: صدرِ اسلام سے ہی منافقین کا وجود رہا ہے، اس نفاق کی سب سے بڑی وجہ مولائے کائنات (ع) کی ذات گرامی رہی ہے، اگر بقیع تعمیر نہ کیا گیا تو محافظین حرم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس نفاق کی دیوار کو توڑ کر جنت البقیع کو تعمیر کریں گے۔
انجمن محبان ام الائمہ (س) کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید مراد رضا رضوی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ جنت البقیع عالم اسلام کا مسئلہ ہے،
کہا: جنت البقیع کا مسئلہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے، پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، لیکن انہدام کے 100 سال گزرنے پر صرف شیعہ احتجاج کر رہے ہیں، جب کہ انہدام جنت البقیع کے وقت پورے عالم اسلام سے آواز اٹھی تھی، جو مسئلہ عالم اسلام کا تھا وہ مسئلہ اب صرف شیعوں کا کیوں ہو گیا؟ یاد رہے کہ وہابیت عالم اسلام کی دشمن یے، یہ صرف شیعوں کی دشمن نہیں ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین سید حیدر عباس زیدی نے آل سعود کی پانچ بڑی جنایتوں اور مظالم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آل سعود نے 5 جنایتیں کی ہیں جسے عالم اسلام کبھی فراموش نہیں کر سکتا، 1. انہدام جنت البقیع 2. انہدام زادگاہ پیغمبر (ص) 3. انہدام خانہ حضرت خدیجہ (س) 4. اس گھر کا منہدم کرنا جس میں حضرت علی علیہ السلام پلے بڑھے، 5. اس کتاب خانہ کا منہدم کرنا جس میں 60 ہزار سے زائد نادر کتابیں موجود تھیں تاکہ حقائق لوگوں تک نہ پہنچ سکیں۔
اس کانفرنس کا اختتام جنت البقیع کی تعمیر کے سلسلے میں دعائیہ کلمات پر ہوا۔
واضح رہے کہ یہ کانفرنس تحریر پوسٹ کے زیر اہتمام منعقد کی گئی جس میں طلاب ہندوستان کی بعض انجمنوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، شرکت کرنے والی انجمنوں میں انجمن آل یاسین، انجمن محبان آل یاسین، انڈین اسلامک اسٹوڈنٹس یونین، الامام الحسین (ع) ٹرسٹ، المصطفیٰ فاؤنڈیشن کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ خبر مولانا سید محمود حسن رضوی نے دی۔