اسرائیلی دستوں نے سات مئی اتوار کے روز بیت اللحم کے ایک مضافاتی گاؤں میں ایک فلسطینی اسکول بلڈوزروں سے دوبارہ منہدم کر دیا۔ اس فلسطینی تعلیمی ادارے کو چلانے کے لیے مالی وسائل یورپی یونین کی طرف سے مہیا کیے جاتے تھے۔
تل ابیب سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فلسطینی نیوز ایجنسی وفا نے بتایا کہ یورپی یونین کی فنڈنگ سے چلنے والے اس اسکول کی عمارت کو گرانے کے لیے اسرائیل کے سکیورٹی دستے آج اتوار کو علی الصبح بیت اللحم کے ایک نواحی گاؤں میں داخل ہوئے۔
اس وقت وہاں اس گاؤں کے رہائشی بہت سے فلسطینی جمع تھے، جنہیں منتشر کرنے کے لیے اسرائیلی اہلکاروں نے پہلے آنسو گیس استعمال کی اور اس کے بعد التحدی نامی یہ اسکول بلڈوزروں سے مسمار کر دیا گیا۔
بعد ازاں اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ فوج اس اسکول کے منہدم کیے جانے کی رپورٹوں کی چھان بین کر رہی ہے۔یہ اسکول ایک بار پہلے دو ہزار سترہ میں بھی مہندم کر دیا گیا تھا مگر پھر بعد میں اس کی نئے سرے سے تعمیر کی گئی تھی۔
اسرائیل کی ایک عدالت نے ابھی دو ماہ قبل مارچ میں ہی التحدی اسکول کے دوبارہ انہدام کی اجازت دے دی تھی۔ عدالت نے یہ فیصلہ اسرائیل میں دائیں بازو کی ایک ملکی تنظیم کی طرف سے دی جانے والی درخواست کی باقاعدہ سماعت کے بعد سنایا تھا۔
بیت اللحم کے گورنریٹ میں تعلیمی امور کے ڈائریکٹر بسام جبر نے نیوز ایجنسی وفا کو بتایا کہ التحدی نامی اسکول ایک پرائمری اسکول تھا، جس میں پہلی سے لے کر چوتھی جماعت تک کے تقریباﹰ 60 فلسطینی بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
اسی دوران ویسٹ بینک کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یورپی یونین کے مندوبین نے اس بنیادی تعلیمی ادارے کے ایک بار پھر مسمار کر دیے جانے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
یورپی یونین کے نمائندوں نے کہا، ”بیت اللحم کے نواح میں جبہ الذیب نامی گاؤں میں یورپی یونین کی فنڈنگ سے چلائے جانے والے فلسطینی اسکول کے اسرائیلی حکام کی طرف سے منہدم کیے جانے کی اطلاعات بیزار کن ہیں۔‘‘
یورپی یونین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایسی عمارات کا انہدام غیر قانونی ہے اور بچوں کے تعلیم کے بنیادی حق کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔
یورپی یونین کے نمائندوں نے کہا، ”اسرائیل کو ہر طرح کی عمارات کے انہدام اور فلسطینیوں کی بے دخلی کی تمام کارروائیاں روک دینا چاہییں کیونکہ ایسے اقدامات سے فلسطینی آبادی کے مصائب میں صرف اضافہ ہی ہوتا ہے اور پہلے ہی سے کشیدہ ماحول میں کشیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔‘‘