مصر کے ایک مشہور ریسٹورنٹ میں با حجاب خواتین کو داخلے سے روکنے کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر غم و غصہ اور نسلی امتیاز کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ دوسری طرف مصری وزارت سیاحت نے معاملے کی وضاحت کی ہے۔
وزارت سیاحت نے کہا کہ ہوٹل اینڈ ٹورسٹ اسٹیبلشمنٹ قانون جو گذشتہ سال جاری کیا گیا تھا کہ کسی بھی ہوٹل یا سیاحتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ با پردہ پوش خواتین کو داخل ہونے، لطف اندوز ہونے اور وہاں فراہم کی جانے والی تمام خدمات حاصل کرنے سے روکے۔
سیاحت اور نوادرات کی وزارت میں ہوٹل اسٹیبلشمنٹ دکانوں اور سیاحتی سرگرمیوں کے لیے مرکزی انتظامیہ کے سربراہ محمد عامر نے کہا کہ وزارت نے ریسٹورنٹ کا معائنہ کرنے اور اس واقعے کی تصدیق کرنے اور واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی نے اس سہولت میں کام کرنے والی تین محجب خواتین کی موجودگی کا پتہ لگایا اوران لوگوں سے کہا جو اس طرح کے رویے کا شکار ہیں۔ شہریوں سے کہا گیا ہےکہ اگر کوئی ہوٹل یا لائسنس یافتہ سیاحتی ادارہ وزارت سیاحت کسی قسم کے امتیازی سلوک کا مظاہرہ کرے تو وہ شکایت درج کرائیں۔ وزارت نے اس بات پر زور دیا کہ اگر جمع کرائی گئی شکایات میں سے کسی کی تصدیق ہوئی تو وزارت فوری طور پر تمام قانونی اقدامات اٹھائے گی۔
دوسری طرف چیمبر آف ٹورسٹ اسٹیبلشمنٹس اینڈ ریسٹورنٹس کے رکن ہشام وہبہ نے ‘العربیہ ڈاٹ نیٹ’ کو بتایا کہ چیمبر کو اس واقعے کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ اگران لڑکیوں میں سے کسی کو داخلے سے روکا گیا تھا تو انہیں باضابطہ طور پر شکایت درج کرانی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ با پردہ خواتین کو بعض جگہوں میں داخل ہونے سے روکنا ممکن ہے جہاں ان کے داخلے کی اجازت نہیں ہے، جیسے کہ نائٹ کلب اور ڈسکو کلب ہیں۔ان جگہوں پر فنکارانہ پرفارمنس اور ممنوعہ مشروبات پیش کیے جاتے ہیں جو با حجاب خواتین کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ مصرمیں ایک ریستوران کی طرف سے خواتین با پردہ خواتین کو داخلے سے روکنے کے واقعے پر عوامی حلقوں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔