نئی دہلی،23مئی (یواین آئی)معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کی نئی کتاب[؟] گاندھی ۔سیاست اور فرقہ واریت[؟] کا یہاں ملک کی سرکردہ شخصیات کے ہاتھوں رسم اجرائعمل میں آئی۔ تقریب سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے مہاتماگاندھی کے پوتے تشار گاندھی نے کہاکہ یہ دیش اسی وقت مضبوط ،طاقتور اور پر امن رہے گا جب گاندھی کے نظریہ پر عمل کیا جائے گا ۔ آج کے دور میں کچھ عناصر مہاتماگاندھی کے کردار پر سوال اٹھانے لگے ہیں ، ان کے ہندوہونے پر سول کھڑا کررہے ہیں ، ایسی ذہنیت رکھنے والے ناتھو رام گوڈ کے پیروکار ہیں ۔ میرا صاف مانناہے کہ ہندو اور ہندتوادی میں وہی فرق ہے جو گاندھی اور گوڈسے میں ہے ۔معروف دانشور پروفیسر اپروانند نے اپنے خطاب میں کہاکہ گاندھی جس زمانہ میں تھے وہ فرقہ پرستے کے مسائل سے نبرد آزماتھے ۔ ہندومسلمانوں کے خلاف تھے اور کہیں مسلمان ہند[؟]وں کے خلاف تھے ،
انہوں نے دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی تعمیر اور بہتری کیلئے جدوجہد کی لیکن حالیہ دنوں میں اب مسئلہ فرقہ پرستی کا نہیں ہے بلکہ اکثریت واد کا ہے ۔ ملک کا اکثریتی طبقہ قانون اور دستور پر بھروسہ رکھنے کے بجائے اپنی مرضی کا نظام چاہتاہے ، قانون کی حکمرانی کے بجائے وہ اپنے مزا ج کے مطابق حالات سے نمٹنا چاہتاہے ۔
اس کی سوچ یہ بن گئی ہے کہ اقلیتوں اور مسلمانوں پر ظلم کرنا قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔ اس لئے آج کے حالات میں اکثریت واد سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس کا واحدحل قانون کی حکمرانی ہے کیوں کہ آئین میں ہی سبھی کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں ۔پروفیسر ویپن کمار ترپاٹھی نے کہاکہ میرا مانناہے کہ فرقہ پرتی کی سرپرستی ہمیشہ ملک کے سرمایہ داروں اور تاجروں نے کی ہے ،
Tushar Gandhi
مہاتماگاندھی کے زمانے میں بھی جو سرمایہ دار اور بڑے تاجر تھے وہ انگریزوں سے ملے ہوئے تھے آج بھی یہی لوگ آرا یس ایس کوسپورٹ کرتے ہیں فرقہ پرستی اور نفرت کو بڑھاواد ینے کیلئے ۔ڈاکٹر اشو ک کمار پانڈے نے اپنے خطاب میں کہاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی یہاں کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اکثریت کا مسئلہ ہے ، اکثریت کو اس کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت ہے ، ان کو سمجھانا وقت کا تقاضاہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ فرقہ پرستی کے خلاف گفتگو جس میں مجلس میں ہوتی ہے اس میں انہیں لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے جو خود اس کا شکار ہیں ، میرا مانناہے کہ ایسی مجلس میں یہ گفتگو کرنا ان کے زخموں کو مزید کریدنے کے مترادف ہے ۔پروفیسر افضل وانی وائس چیرمین آئی او ایس نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ مہاتماگاندھی سیکولرزم کی بنیاد تھے ، انہوں نے بارہا کہاکہ ہندو اور مسلمان دونوں اسی دیش کے ہیں ، مسلمان اپنے مذہب پر عمل کریں گے اور ہندو اپنے مذہب پر عمل کریں گے ، ایک دوسرے کے مذہب کے خلاف نہیں بولیں گے اور اس کو انہوں نے عملی طور پر ثابت کیا ۔ قبل ازیں آئی او ایس کے جنرل سکریٹری پروفیسر زیڈ ایم خان نے اپنی گفتگو میں آئی ا و ایس کا تعارف کراتے ہوئے کتاب کی اہمیت اور موضوع کا تذکرہ کیا ۔
کتاب کے مصنف پیوش ببیلے اپنی گفتگو میں کہاکہ اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج کے حالات میں گاندھی کیا کہنا چاہتے ہیں اور کس طرح گاندھی کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے ملک کو بہتر بناسکتے ہیں جس میں ہندو مسلمان ، سکھ عیسائی سبھی اپنے اپنے مذہب پرعمل کرتے ہوئے ملک میں آزادی کے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں مہاتماگاندھی ایوار ڈ کے فا[؟]نڈر امت سچدیوا ، مشہور صحافی شاستری رام چندرن ، ایڈوکیٹ انیل نوریا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور موجود ہ حالات میں اس کتاب کو بیحد ضروری قرار دیا ۔شرکائنے آئی او ایس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کتاب کے مصنف سینئر صحافی پیوش ببیلے کو مبارکباد پیش کیا ۔
رسم اجرائکی تقریب میں ملک کے متعدد سرکردہ صحافیوںاور دانشوران نے شرکت کی جس میں پروفیسر اختر الواسع، پروفیسر اسحاق احمد ، مولانا عبد الحمید نعمانی، پروفیسر اشتیاق عالم ،مشہور صحافی شعیب رضا فاطمی ، مشہور اینکر نوین کمار ، نیوز لونڈری کے ایڈیٹر اتل چورسیا ،صحافی احمد جاوید ، موہت شرما ، پنکج شریسواستو ، رضوانہ مشتاق سمیت متعدد لوگوں کے نام سر فہرست ہیں ۔ قبل ازیں عدنان احمد ندوی کی تلاوت سے تقریب کا آغاز ہوا اور پروفیسر حسینہ حاشیہ نے تمام شرکائاور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔