ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان اختلافی معاملات کے حل میں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کی جانب سے جن جگہوں اور تنصیبات کے مشتبہ ہونے کے کیسز پیش کئے گئے تھے، تین میں سے ایک کیس کو بند کردیا گیا ہے۔
ایران پریس نیوز ایجنسی نے ایک باخبر ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ آئی اے ای اے کی جانب سے مشتبہ قرار دیئے گئے ایک مرکز کا معاملہ حل ہوگیا ہے۔ اس ذریعے نے بتایا ہے کہ اب ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کی جانب سے پیش کئے گئے مبینہ کیسز کی تعداد گھٹ کر دو ہوگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مریوان یا آبادے کیس کو آئی اے ای اے نے بند کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایران کی جانب سے تراسی اعشاریہ سات فیصد افزودگی والے ذرات کے اثرات پر دی جانے والی فنی معلومات کے بعد، ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے معاملے کو کلیئر کرتے ہوئے اس سلسلے کے دعووں کو بھی واپس لے لیا ہے۔
اس سے قبل آئی اے ای اے نے دعوی کیا تھا کہ ایران میں تراسی اعشاریہ سات فیصد افزودہ یورینیم کے ذرات کا انکشاف ہوا ہے۔
ایران پریس نے مذکورہ باخبر ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ایران نے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کو اصفہان ایٹمی تنصیبات میں چند عدد کیمرے نصب کئے جانے پر رضامندی ظاہر کردی ہے جن میں سے ایک تہائی کیمرے نصب کئے جا چکے ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ یہ کیمرے آف لائن ہیں اور ان سے حاصل شدہ فوٹیج منتقل نہیں کئے جائیں گے۔
ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان اختلافات کم ہونے اور حالات کسی حد تک خوشگوار ہونے کی وجہ گذشتہ مارچ کے دوران ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی کے دورہ تہران اور صدر مملکت اور ایران کے دیگر اعلی حکام سے ان کی ملاقات کو قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر سید ابراہیم رئیسی نے رافائل گروسی سے ملاقات کے دوران ایران کی نیک نیتی پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ تہران نے آئی اے ای اے کے ساتھ بہترین طریقے سے تعاون کیا ہے اور تعاون کا یہ سلسلہ اسی وقت جاری بلکہ بڑھ سکتا ہے جب ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی بھی اپنی فنی ذمہ داریوں کو پورا اور تسلط پسند طاقتوں کے دباؤ اور ان سے متاثر ہونے سے پرہیز کرے ۔ اب جبکہ آئی اے ای اے کی جانب سے تین میں سے ایک کیس بند اور یورینیم کے آثار کا معاملہ حل ہوگیا ہے تو اس بات کا بھر پور امکان موجود ہے کہ ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے درمیان تعاون میں اضافہ ہو یا پھر نئے سمجھوتوں پر دستخط ہوسکیں ۔ البتہ اس شرط پر کہ مغربی ممالک بھی سیاسی میدان کو ہموار کرنے کی کوشش کریں۔