ممبئی، : باغبان پورہ لاہور سے تعلق رکھنے والی شیاما کا اصل نام خورشید اخترتھا۔ ان کا تعلق لاہور کے متمول ارائیں خاندان سے تھا۔ شیاما 7 جون 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ 1945ء میں چھوٹی عمر میں ہی وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ممبئی منتقل ہوگئیں۔سال 1945ء میں سید شوکت حسین رضوی اپنی فلم ‘‘زینت’’ کی شوٹنگ کر رہے تھے ۔ اس شوٹنگ کو دیکھنے کیلئے شیاما اپنے اسکول کی دیگر طالبات کے ساتھ اسٹوڈیو آئی تھیں۔ وہاں ایک قوالی فلمائی جارہی تھی۔ شوکت حسین رضوی نے انہیں بھی اس قوالی میں شامل کرلیا۔ یہ قوالی بعد میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے ‘‘آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کئے ’’۔ یہ وہی مشہور زمانہ قوالی تھی جس میں پہلی بار ششی کلا بھی جلواگر ہوئیں تھیں۔
انہیں گلوکارہ و اداکارہ نورجہاں کی سفارش پر شوکت رضوی نے اس قوالی کی ٹیم میں شامل کیا۔‘‘زینت’’ نے پورے ہندوستان میں زبردست کامیابی حاصل کی یہیں سے شیاما کے فلمی سفرکا آغاز ہوا۔ شیاما کی ایک اہم فلم ‘‘پتنگا’’ تھی جو 1949 میں ریلیز ہوئی تھی۔‘‘پتنگا’’ اپنے زمانے کی مشہور ترین فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ پورنیما، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور بے شمار فلم میکرز کو متاثر کیا۔
ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو 1953ء میں شیاما کا فلمی نام دیا تھا۔ کیونکہ اُس دورمیں
خورشید نام کی دواداکارئیں پہلے سے موجود تھیں۔ شیاما بڑی خوش شکل تھیں۔ پرکشش نین نقش کی حامل اس اداکارہ نے بہت جلد لاکھوں فلم بینوں کے دل جیت لئے ۔ وہ بلا کی ذہین تھیں اور کیمرے کا سامنا انتہائی پراعتمادی سے کرتی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کیمرے سے نہیں بلکہ کیمرہ ان کا سامنا کرنے سے گھبراتا تھا۔
ان کی خیرہ کن صلاحیتوں نے ہر ہدایت کار کو متاثر کیا جن میں اے آرکاردار اور گورودت جیسے عظیم ہدایتکار بھی شامل تھے ۔ گورودت نے انہیں اپنی فلم ‘‘آرپار’’ میں کاسٹ کیا اس فلم نے شیاما کوشہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس فلم کے گیت کافی خوبصورت تھے ۔ ‘‘آرپار’’ 1954 میں ریلیز ہوئی۔ گیتادت کے گائے ہوئے شاہکار گیت شیاما پر پکچرائز ہوئے تو فلم بین مسحور ہو کر رہ گئے ۔
شیاما کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ گانا فلم بند کرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ ‘‘برسات کی رات’’ کو بھی ان کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ مدھوبالا اور بھارت بھوشن کی موجودگی میں شیاما نے اعلیٰ ادکاری کا مظاہرہ کیا۔اس کے علاوہ جس فلم نے شیاما کو نئی فنی عظمتوں سے سرفراز کیا وہ ضیاسرحدی کی فلم ‘‘ہم لوگ’’ تھی جو سال 1951 میں ریلیز ہوئی۔ ‘‘ہم لوگ’’ فلم کا شمار شیاما کی اہم فلموں میں کیا جاتا ہے ۔ اس فلم میں انہوں نے ایسا شاندار کام کیا جسے کافی عرصے تک لوگ بھلا نہیں پائے ۔ خاص طور پر ان پر پکچرائز کیا گیا گیت ‘‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’’ بہت سراہا گیا۔ اس گیت کو جس مہارت اور لگن سے شیاما نے پکچرائز کرایا وہ یقینا ناقابل فراموش ہے ۔
ان کی فلم ‘‘بھائی بھائی بھی جو 1956 میں ریلیز ہوئی تھی ’’ بہت مشہور ہوئی۔ اس میں ان پر عکس بند کیا گیا یہ گانا ‘‘اے دل مجھے بتا دے ، تو کس پر آ گیا ہے ’’آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے اس گیت کی پکچرائزیشن بھی لاجواب تھی۔ شیاما نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں‘‘ہم لوگ، برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، دل دیادرد لیا، ملن،پائل کی جھنکار، شاردا، کھیل کھیل میں، اجنبی، نیادن نئی رات، جی چاہتا ہے ، تقدیر، بھابی، دل ناداں، پتنگا، شبنم، شرط، شری متی جی’’ زبک اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔
زبک فلم کا گانا تیری دنیا سے دور چلے ہوکے مجبور ہمیں یاد رکھنا’ آج بھی کافی مشہور ہے اور فلم بینوں کو مسحور کردیتا ہے ۔ سال 1957 کی فلم ‘‘شاردا’’ میں انہیں بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ‘‘دل دیا درد لیا’’ اے آر کاردار کی فلم تھی جس میں دلیپ کمار، وحید رحمان، رحمان اورپران جیسے اداکار تھے لیکن اس فلم میں شیاما نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ بلاشبہ وہ 50ء اور60ء کی دہائی کی اہم اداکارہ تھیں۔1953ء میں انہوں نے ایک سینماٹوگرافر فالی مستری سے شادی کرلی تھی۔ ان کے دوبیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔ 1979ء میں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ سال 1980کے بعد انہوں نے فلموں میں کام کرنا کافی کم کردیا تھا۔
شیاما آخری بار سلور اسکرین پر سال 1989 میں ریلیز ہوئی فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ شیاما کے آج بھی دنیا میں ان گنت مداح ہیں۔اپنے زمانے کی ذہین اور بلا کی خوبصورت اس اداکارہ خورشید اختر عرف شیاما نے 82 برس کی عمر میں 14 نومبر 2017 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔