کلکتہ:آئی آئی ٹی کھڑکپور کے سابق طالب علم فیضان احمد کی ‘‘مشتبہ موت’’ کے معاملے میں آج کلکتہ ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران قتل کی تھیوری کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا ہے ۔ کیس کی سماعت منگل کو ہائی کورٹ کے جسٹس راج شیکھر منتھا کی بنچ میں ہوئی۔جسٹس منتھا نے کہا کہ وہ اس معاملے میں قتل کی سزا کی دفعہ 302 کو شامل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ تعزیرات ہند کی اس دفعہ کے تحت جرم ثابت ہونے پر مجرم کو عمر قید یا موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے ۔
گزشتہ اکتوبر میں آئی آئی ٹی کھڑکپور کے طالب علم فیضان احمد کی آئی آئی ٹی کھڑگپور میں غیر متوقع طور پر موت ہو گئی تھی۔
ہاسٹل کے کمرے سے اس کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ اس کے جسم پر زخموں کے نشانات بھی تھے ۔فیضان احمد کی موت پر آئی آئی ٹی کھڑکپوں میں طلبا نے احتجاج بھی کیا تھا ۔انتظامیہ پر اس پورے معاملے پر پردہ ڈالنے کا بھی الزام ہے ۔فیضان کے اہل خانہ نے مشتبہ موت کی جانچ کے لئے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی ۔ہائی کورٹ نے منگل کو یہ بھی تبصرہ کیا کہ آئی آئی ٹی انتظامیہ نے طالب علم کی موت کے معاملے میں بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ہائی کورٹ کے جسٹس منتھا نے پہلے ایک ماہرین کمیٹی کو ہدایت دی تھی کہ وہ آئی آئی ٹی کے طالب علم کی غیر معمولی موت کی خودکشی یا قتل کی تحقیقات کرے ۔
بعد ازاں کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ فیضان کے سر کے پچھلے حصے پر کسی بھاری چیز سے چوٹ کے نشانات ہیں۔ وہ رپورٹ ملنے کے بعد عدالت نے کلکتہ میڈیکل کالج میں فیضان کی لاش کا ایک اور پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیا تھا۔ دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ منگل کو عدالت میں جمع کرائی گئی۔ یہ دیکھ کر جسٹس منتھا نے پولیس سے کہا کہ ملزم کی شناخت کا وقت آگیا ہے ۔ اس بار ہمیں دفعہ 302 کو شامل کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔منگل کو فرانزک ماہر اجے گپتا کی کمیٹی نے متوفی فیضان احمد کی دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
رپورٹ کو دیکھ کر جج نے کہاکہ یہ رپورٹ اور پہلی رپورٹ میں فرق ہے ۔دوسرے پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ متوفی کے سر اور سینے پر چوٹیں تھیں۔اس کے بعد جسٹس منتھا نے حکم دیاکہ ‘‘تفتیشی افسر بدھ تک دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ جمع کر لے ’’۔ دیکھنا یہ ہے کہ آرٹیکل 302 کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
آئندہ سماعت پر اس کیس ڈائری عدالت میں لائی جائے ۔ سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (سی ایف ایس ایل) کو بھی ایک ہفتہ کے اندر ویزرا ٹیسٹ کی رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔واضح رہے کہ مقتول طالب علم کی لاش کو دوسرے پوسٹ مارٹم کے لیے آسام سے کلکتہ لایا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے لاش دوبارہ لواحقین کے حوالے کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ اہل خانہ نے عدالت میں سی بی آئی یا کسی آزاد ایجنسی سے واقعہ کی تحقیقات کی درخواست کی تھی۔ منگل کی سماعت میں، جسٹس منتھا نے اشارہ دیا کہ عدالت ریاستی پولیس کے قابل افسران کے ساتھ ایک ایس آئی ٹی تشکیل کرنے پر غور کرے گی۔
آئی آئی ٹی کھڑکپور کے طالب علم فیضان احمد کی مشتبہ موت پر عدالت کا تبصرہ قتل کی تھیور ی کو مسترد نہیں کیا جاسکتا
کلکتہ:آئی آئی ٹی کھڑکپور کے سابق طالب علم فیضان احمد کی ‘‘مشتبہ موت’’ کے معاملے میں آج کلکتہ ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران قتل کی تھیوری کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا ہے ۔ کیس کی سماعت منگل کو ہائی کورٹ کے جسٹس راج شیکھر منتھا کی بنچ میں ہوئی۔جسٹس منتھا نے کہا کہ وہ اس معاملے میں قتل کی سزا کی دفعہ 302 کو شامل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ تعزیرات ہند کی اس دفعہ کے تحت جرم ثابت ہونے پر مجرم کو عمر قید یا موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے ۔
گزشتہ اکتوبر میں آئی آئی ٹی کھڑکپور کے طالب علم فیضان احمد کی آئی آئی ٹی کھڑگپور میں غیر متوقع طور پر موت ہو گئی تھی۔
ہاسٹل کے کمرے سے اس کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ اس کے جسم پر زخموں کے نشانات بھی تھے ۔فیضان احمد کی موت پر آئی آئی ٹی کھڑکپوں میں طلبا نے احتجاج بھی کیا تھا ۔انتظامیہ پر اس پورے معاملے پر پردہ ڈالنے کا بھی الزام ہے ۔فیضان کے اہل خانہ نے مشتبہ موت کی جانچ کے لئے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی ۔ہائی کورٹ نے منگل کو یہ بھی تبصرہ کیا کہ آئی آئی ٹی انتظامیہ نے طالب علم کی موت کے معاملے میں بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ہائی کورٹ کے جسٹس منتھا نے پہلے ایک ماہرین کمیٹی کو ہدایت دی تھی کہ وہ آئی آئی ٹی کے طالب علم کی غیر معمولی موت کی خودکشی یا قتل کی تحقیقات کرے ۔
بعد ازاں کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ فیضان کے سر کے پچھلے حصے پر کسی بھاری چیز سے چوٹ کے نشانات ہیں۔ وہ رپورٹ ملنے کے بعد عدالت نے کلکتہ میڈیکل کالج میں فیضان کی لاش کا ایک اور پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیا تھا۔ دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ منگل کو عدالت میں جمع کرائی گئی۔ یہ دیکھ کر جسٹس منتھا نے پولیس سے کہا کہ ملزم کی شناخت کا وقت آگیا ہے ۔ اس بار ہمیں دفعہ 302 کو شامل کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔منگل کو فرانزک ماہر اجے گپتا کی کمیٹی نے متوفی فیضان احمد کی دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
رپورٹ کو دیکھ کر جج نے کہاکہ یہ رپورٹ اور پہلی رپورٹ میں فرق ہے ۔دوسرے پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ متوفی کے سر اور سینے پر چوٹیں تھیں۔اس کے بعد جسٹس منتھا نے حکم دیاکہ ‘‘تفتیشی افسر بدھ تک دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ جمع کر لے ’’۔ دیکھنا یہ ہے کہ آرٹیکل 302 کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
آئندہ سماعت پر اس کیس ڈائری عدالت میں لائی جائے ۔ سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (سی ایف ایس ایل) کو بھی ایک ہفتہ کے اندر ویزرا ٹیسٹ کی رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔واضح رہے کہ مقتول طالب علم کی لاش کو دوسرے پوسٹ مارٹم کے لیے آسام سے کلکتہ لایا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے لاش دوبارہ لواحقین کے حوالے کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ اہل خانہ نے عدالت میں سی بی آئی یا کسی آزاد ایجنسی سے واقعہ کی تحقیقات کی درخواست کی تھی۔ منگل کی سماعت میں، جسٹس منتھا نے اشارہ دیا کہ عدالت ریاستی پولیس کے قابل افسران کے ساتھ ایک ایس آئی ٹی تشکیل کرنے پر غور کرے گی۔