نئی دہلی،:سپریم کورٹ نے 2000 روپے کے نوٹ بغیر کسی مجازشناختی ثبوت کے بدلنے کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کی اجازت دینے کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضی پرایک بار پھر جمعہ کوسماعت کرنے سے انکار کردیا۔جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس راجیش بندل کی تعطیلاتی بنچ نے ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی عرضی پر جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں جلدبازی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔بنچ نے کہا کہ اس عدالت کے ذریعے اس معاملے میں گزشتہ یکم جون کو دئے گئے ہدایات پر عمل کیا جائے جس میں گرمیوں کی تعطیلات کے بعد سماعت کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے ۔
اس سے قبل جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی تعطیلاتی بنچ نے مسٹر اپادھیائے کی طرف سے دائر اپیل کی جلد سماعت کے لیے فہرست بند کرنے سے یکم جون کو انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست گزار گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد چیف جسٹس کے سامنے اس معاملے کا ذکر کرسکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ اپادھیائے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 24 مئی کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اگلے دن انہوں نے اس معاملے کو ‘خصوصی تذکرہ ’کے دوران اٹھایا۔اپیل میں کہا گیا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کا 29 مئی 2023 کا فیصلہ درست نہیں ہے ۔درخواست گزار کی دلیل ہے کہ 19 اور 20 مئی کو جاری کردہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے نوٹیفکیشن نے غیر قانونی رقم کو قانونی بنانے کا موقع فراہم کیا ہے ۔
اس لئے واضح طور پر یہ نوٹیفکیشن من مانی، غیر معقول اور مساوات کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے ۔ ہائی کورٹ نے 29 مئی کو مسٹر اپادھیائے کی مفاد عامہ کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا تھا کہ خالصتاًبینک نوٹوں کی واپسی سے متعلق ایک پالیسی فیصلہ ہے اور اسے بیکاریا من مانی نہیں کہا جا سکتا یا اس سے کالا دھن، منی لانڈرنگ، منافع خوری یا بدعنوانی کو فروغ دیا گیا۔مسٹر اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی خصوصی اجازت کی درخواست میں کہا ہے کہ ہائی کورٹ اس بات کی تعریف کرنے میں ناکام رہی کہ آر بی آئی نے نوٹیفکیشن میں قبول کیا ہے کہ زیر گردش 2000 روپے کے نوٹوں کی کل قیمت 6.73 لاکھ کروڑ روپے سے کم ہو کر 3.62 لاکھ کروڑ پر آ گئی ہے ۔
عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ 3.11 لاکھ کروڑ لوگوں کے لاکرس میں پہنچ چکے ہیں اور باقی ذخیرہ اندوزی کر دیے گئے ہیں۔درخواست گزار وکیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نوٹیفکیشن انسداد بدعنوانی ایکٹ، بے نامی لین دین ایکٹ، منی لانڈرنگ ایکٹ، محتسب ایکٹ، سی وی سی ایکٹ، مفرور اقتصادی مجرم ایکٹ اور بلیک منی ایکٹ کے مقصد اور مقاصد کے خلاف ہیں۔مسٹر اپادھیائے نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ تقریباً 30 کروڑ خاندانوں کے پاس 130 کروڑ آدھار کارڈ ہیں۔
اسی طرح 225 کروڑ بینک اکاؤنٹس ہیں جن میں 48 کروڑ جن دھن اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ 2000 روپے کے نوٹوں کو بینک اکاؤنٹ میں جمع کیے بغیر یا کوئی پرچی اور شناختی ثبوت حاصل کیے بغیر تبدیل کرنے کی اجازت دینا واضح طور پر من مانی، غیر معقول اور آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے ۔