سعودی عرب میں پھانسیوں کا تسلسل اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سعودی حکام اب بھی سیاسی مخالفین یا انقلابی جوانون کی سرگرمیوں کو ’’ریڈ لائن‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت ترین ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
مہر خبررساں ایجنسی: گزشتہ ایک سال کے دوران، سعودی عرب کی بادشاہی عدالت نے دہشت گرد گروہوں سے تعلق کے الزام میں 44 افراد کو ابدی نیند سلا دیا ہے اور ان میں سے 12 افراد کو گزشتہ ماہ میں پھانسی پر لٹکا دیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق، پھانسی کی سزا پانے والے افراد میں سے اکثر کا تعلق سعودی عرب کے مشرقی اور شیعہ نشین علاقوں سے ہے۔ پھانسیوں کا یہ سلسلہ ایسے وقت میں جاری ہے جب انسانی حقوق کے بہت سے ادارے اور بین الاقوامی تنظیمیں سعودی عرب میں سیاسی مخالفین یا فعال انقلابی جوانون کے خلاف سزائے موت پر عمل درآمد کے تیزی سے جاری رہنے پر تنقید کر رہی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی مخالفین کو پھانسی پر لٹکانا، اب بھی ریاض کے کسی بھی “مخالف” کی آواز کو دبانے کا ایک طریقہ ہے۔ انسانی حقوق کے مبصرین بھی سعودی بادشاہی نظام میں پھانسی کی پالیسی کے جاری رہنے کو وسیع سیاسی اور سماجی اصلاحات کے حوالے سے ریاض کی پالیسیوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین کی نظر میں سزائے موت کا تسلسل سعودی عرب کے جوان شہزادے کے اصلاحاتی عمل میں ایک طرح کا دوہرا معیار ہے۔
شیعہ جوانان؛ سعودی سیاست کی زد میں! سعودی شیعوں کا مجتہدین کو کھلا خط
اتوار 4 جون 2023ء کو سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ حسین علی المحیشی، زکریا حسن المحیشی اور فاضل زکی انصیف نامی تین شیعہ جوانون کو “ایک دہشت گرد گروہ میں سرگرمی، ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت، سیکورٹی فورسز کے مراکز پر حملہ کرنے اور دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرنے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی ہے۔ سعودی عرب کے اس بیانیے میں ان افراد میں سے دو پر تشدد اور عصمت دری کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔
سعودی عرب کی حالیہ پھانسیوں کے ردعمل میں، اس ملک کے شیعوں نے قم اور نجف کے مجتہدین سے درخواست کی ہے کہ شیعہ نوجوانوں کی پھانسی کے عمل کو روکنے کیلئے ریاض کو پیغام بھیجیں۔ اس گروپ کے بیانیے میں کہا گیا ہے: سعودی عرب نے ہمیشہ اپنے مخالفین کو خونخوار، قاتل اور سازشی کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ ان تینوں شہداء کی پھانسی بھی سابقہ سیاسی پھانسیوں سے مختلف نہیں۔ ہم قم المقدسہ اور نجف اشرف کے مجتہدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان پھانسیوں کی روک تھام کیلئے ہماری مدد کریں۔ سعودی مخالفین کا کہنا ہے کہ ان تینوں شیعہ جوانون کو تقریباً 10 سال تک حراست میں رکھا گیا اور صرف اور صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر موت کی سزا سنائی گئی!
شیعہ جوانان؛ سعودی سیاست کی زد میں! سعودی شیعوں کا مجتہدین کو کھلا خط
کچھ روز قبل، 29 مئی کو، سعودی وزارتِ داخلہ نے دو بحرینی نوجوانوں، صادق ثمر اور جعفر سلطان کو “سعودی عرب اور بحرین کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے، الشرقیہ کے علاقے میں ایک دہشت گرد گروہ میں شمولیت اختیار کرنے کے الزام میں پھانسی دینے کا اعلان کیا۔ ان دو شیعہ نوجوانوں کی پھانسی کے بعد، بحرینی شیعوں کے رہنما آیت اللہ عیسیٰ قاسم نے ان کے اہل خانہ سے رابطہ کر کے ان نوجوانوں کی شہادت پر ان سے تعزیت کا اظہار کیا۔ بحرینی حقوق بشر کمیٹی کے سربراہ باقر درویش نے بھی ان دو نوجوانوں پر تشدد کر کے پھانسی کی سزا کی مذمت کی۔ 23 مئی کو سعودی عرب نے ایک ایسے شخص کو پھانسی دینے کی اطلاع دی ہے جس نے کسی دشمن ملک سے رابطہ کیا اور اس ملک کے کیمپوں میں سے ایک میں ہتھیاروں اور بموں کے استعمال کی تربیت حاصل کی۔ گزشتہ ماہ نیز منہال بن عبداللہ آل ربح نامی شخص کو سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی کوشش کرنے کے الزام میں پھانسی پر لٹکا دیا ہے۔
12 مارچ 2022ء میں؛سعودی عرب میں سیاسی مخالفین کے خلاف پھانسی کی سب سے بڑی مہم چلائی گئی جس کے دوران 73 سعودی، 7 یمنی اور 1 شامی سمیت 81 افراد کو داعش اور انصار اللہ سے وابستہ ہونے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ قابلِ ذکر نکتہ یہ ہے کہ ان افراد میں سے 40 شیعہ تھے۔ یورپی-سعودی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور ریپریو آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق، 2015ء میں شاہ سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے، سعودی عرب نے تقریباً ہزاروں افراد کو سزائے موت سنائی ہے۔ پھانسیوں کے اعدادوشمار ایسے وقت میں بڑھ رہے ہیں جبکہ سابق سعودی بادشاہ ملک عبداللہ اور ملک سلمان نے انسانی حقوق کے اداروں سے مختلف مواقع پر سزائے موت کو محدود کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
خلاصۂ کلام:
سعودی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ منشیات کی اسمگلنگ سے متعلق جرائم کے ملزمان کیلئے متبادل سزاؤں پر غور کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں پھانسیوں کا تسلسل اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سعودی حکام اب بھی سیاسی مخالفین یا انقلابی جوانون کی سرگرمیوں کو ’’ریڈ لائن‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت ترین ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں، ریاض دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی پالیسی سے “احتیاطی کارروائی” کی حکمت عملی کی طرف بڑھ گیا ہے تاکہ بادشاہی نظام کے اندر کسی بھی احتجاجی آواز آواز کو دبایا کیا جا سکے۔ “ینبع”، “التنظیم السری”، “خلایا سبعه”، “واحد واربعون”، “تسعه واربعون” اور “ولید الردادی” سعودی مخالفین کے سب سے مشہور گروہ ہیں جن کا سعودی سیکیورٹی فورسز نے تعاقب کیا۔
2017ء میں محمد بن سلمان کے ولی عہدی کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد، بہت سے دانشوروں، خواتین کے حقوق کے علمبرداروں، مذہبی سرگرم افراد اور نوجوان بلاگرز کو صرف اور صرف سعودی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے بھاری سزائیں سنائی گئیں ہیں۔ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ریاض پر تنقید میں مسلسل اضافے کے باوجود، سعودی بادشاہی نظام کی جانب سے اس منفی پالیسی کا تسلسل مغربی ایشیائی خطے میں فرقہ وارانہ اور مذہبی کشیدگی میں اضافے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔