دنیا میں تین ممالک ایسے بھی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی تو ہے لیکن کوئی مسجد نہیں ہے کیونکہ ان کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ پوری دنیا میں مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور ان کے پاس مذہبی مراکز نیز عبادت کے لئے مسجد اور گرجا گھر جیسے عبادت خانے بھی ہیں۔
دنیا کے دو سب سے بڑے مذاہب یعنی عیسائیت اور اسلام کے ماننے والے دنیا کے تقریبا ہر ملک میں پائے جاتے ہیں اور عبادت کے لئے گرجا گھر اور مساجد بھی ان کے پاس ہیں لیکن کیا کوئی ملک ایسا ہوسکتا ہے جہاں کسی مذہب کے ماننے والوں کو ان کی عبادت گاہ بنانے کی اجازت نہ ہو اور وہ بھی دنیا کے دوسرے سب سے بڑے اور امن پسند مذہب کے ماننے والوں کو؟ یہ بات سن کر شاید یقین نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے اور ایک نہیں بلکہ دنیا میں تین ایسے ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی تو ہے لیکن کوئی مسجد نہیں ہے کیونکہ ان کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
پہلا ملک سلوواکیہ:
سلوواکیہ، جہاں مسلمان تو ہیں لیکن مسجد ندارد ہے۔ سلوواکیہ جولائی 1992 میں چیکوسلوواکیہ سے الگ ہو کر معرض وجود میں آیاتھا۔ وقتاً فوقتاً سلوواکیہ کے مسلمان مسجد کی تعمیر کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں لیکن حکومت ان کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
دوسرا ملک ایسٹونیا:
ایسٹونیا سلوواکیہ سے بہت پرانا ملک ہے۔ یہ ملک فروری 1918 میں آزاد ہوا تھا۔ اس ملک میں بھی مسلمان ہیں لیکن کوئی مسجد نہیں ہے البتہ نماز پڑھنے کے لئے ایک اسلامی ثقافتی مرکز موجود ہے۔ اس ملک کے مختلف مقامات پر لوگ ایک ہی مشترکہ اپارٹمنٹ میں نماز پڑھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ یہاں شیعہ اور سنی ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔
تیسرا ملک موناکو:
موناکو ایک چھوٹا سا ملک ہے جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد ہے لیکن وہاں بھی مسجد ندارد ہے۔ قابل ذکر ہے کہ تینوں مذکورہ ممالک، جہاں مسلمانوں کی آبادی کے باوجود کوئی مسجد نہیں ہے، یہ تینوں ممالک یورپ میں واقع ہیں۔