اپریل انسانی خلائی پرواز کی تاریخ کے حوالے سے ہمیشہ سے اس عظیم سفر کی یاد دلاتا ہے اور دلوں کو گرما تا ہے جب کہ یہ انسانی جوش و ولولے کو ازسر نو تروتازہ بھی کرتا ہے۔
12 اپریل 1961 ء کے اسی دن ایک بہادر روسی نوجوان یوری گاگارین نے پہلی انسانی خلائی پرواز مکمل کی تھی اور خلاء کی پراسرایت کو ختم کرکے اس کا دروازہ اپنی اگلی نسل کے لیے کھول دیا تھا جو کہ ہمیشہ سے ہی انسانی تجسس کا محور رہا ہے۔ 62 سال بعد 3 اپریل 2023 ء کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلائی مہم جوئی میں نیا بیڑا اٹھا یا ہے ایک ایک بار پھر چاند تک ممکنہ انسانی رسائی کے مشن کے عملے کا اعلان کر دیا ہے جو کہ کسی دھماکے سے کم نہیں ہے۔
اس چار رکنی ماہر ترین خلابازوں پر مشتمل ٹیم میں تین امریکی ہیں جن میں ایک خاتون اور چوتھے ایک کینیڈین خلاباز ہیں جن کے ناموں کا باضابطہ اعلان کیا جاچکا ہے، جوکہ اگلے برس 11 نومبر 2024 ء کو چاند کے سفر پر روانہ ہورہے ہیں اور یہ ’’آرٹیمس ٹو‘‘ خلائی مشن کا حصّہ ہیں۔ ان خلابازوں کا بنیادی مقصد چاند پر اترنا یا لینڈ کرنا نہیں بلکہ یہ چاند کے مدار میںگردش کریں گے اور چاند کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرسکیں گے، تاکہ اگلے قمری مشن ’’آرٹیمس تھری‘‘ کے خلابازوں کے لیے را ہ ہموار کی جاسکے جو چاند کی سطح پر پچاس سال سے زائد وقفے کے بعد ایک بار پھر انسانی قدم رکھنے کا کارنامہ انجام دیں گے۔
اگرچہ اس بار نیا یہ ہوگا کہ دنیا کی پہلی خاتون بھی چاند کی سطح کو اپنے قدموں تلے روندنے کی بے تابی سے منتظر ہے، روانہ ہونگی جو کہ سال 2025ء تک متوقع ہے ۔
ناسا کا نیا آرٹیمس دوم مشن کا تروتازہ یہ عملہ ہزاروں سائنسی و تیکنیکی کارندون کی شب وروز انتھک محنت کرنے والوں کی نمائندگی کررہا ہے جن کے عمل دخل سے ہی تاروں تک انسانی رسائی کو ممکن بنایا جائے گا، یہ ہمارا انسانیت کا ترجمان عملہ ہے۔
اس مہم میں ناسا کے خلاباز رِیڈ وائزمین (Reid Wiseman) ، وکٹر گلوور،خاتون کرسٹینا کوچ(Cristina Hammock Koch) اور کینیڈین خلائی ایجنسی کے نمائندہ جیریمی ہینسن (Jeremy Hansen)شامل ہوئے ہیں۔ تینوں مرد خلابازوں کے ساتھ شامل خاتون خلاباز کرسٹینا کوچ بھی صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی مرد آہن سے ہرگز کم نہیں ہیں۔ ناسا کے صف اول کے خلابازوں کی فہرست میں کوچ کا نمبر تیسرا ہوگیا ہے جب کہ تمام خواتین میں وہ نمبر ون ہیں۔
کرسٹینا نے 2020 ء میں اپنی ساتھی خلاباز جسیکامیئر کے ساتھ جڑواں چہل قدمی کرکے ریکارڈ قائم کیا ہے۔ کرسٹینا نے خلاء میں رہتے ہوئے مسلسل 328 دنوں کا ریکارڈ بھی بنا ڈالا ہے جو کہ خلائی اسٹیشن آئی ایس ایس پر رہائش رکھتے ہوئے بنایا گیا۔ ناسا کے اس مشن میں پہلے افریقی۔ امریکی خلاباز وکٹر گلوور پائیلٹ کے طور پر شامل ہیں۔ نئی ٹیم کی سخت ٹریننگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس خلائی مشن میں خلابازوں کے نئے خوب صورت خلائی سوٹس کو بھی آزمایا جارہا ہے جو کِھلتے ہوئے اورنج رنگ کے ہیں۔
ناسا کے معمرایڈمنسٹربل نیلسن نے اپنے نئے قمری مشن کے عملے کا تعارف کرواتے ہوئے کہا، ہماری فاؤنڈیشن میں گہرے خلاء کے لیے نیا راکٹ، خلائی لاؤنچنگ سسٹم SLS)) اور مون خلائی جہاز ’’اَورائن‘‘ اور اس کا تمام تر نظام دُور گہرے خلائی ماحول کی ہم آہنگی اور ممکنہ حد تک مؤثر اور مقابلہ آرائی کے لیے تیار ہیں۔
اسی لیے یہ ایک قابل تعریف جرأت من دانہ مہم ہے، جب چاروں خلاباز میگا مون راکٹ پر سوار کینیڈی خلائی مرکز کے ہیوی لاؤنچنگ کمپلیکس39-B سے اپنے مشن پر نکلیں گے اور اس چاند کے سفر کی شروعات میں اَورائن اور اس کے سسٹم کی درستی کی جانچ پڑتال کریں گے۔ چاروں خلاباز آرٹیمس دوم اپنے کام کی انجام دہی میں چاند کے اطراف مدار میں چکر کاٹیں گے۔
ناسا اپنے اس مشن کے ذریعے سائنسی و تیکنیکی نوعیت کے تحقیقی کاموں کی بدولت چاند پر آئندہ مستقبل قریب میں ایک طویل مدتی رہائشی قیام کے اڈے کا قیام چاہتا ہے اور اس طرح نیا عملہ اس ہدف کے مکمل کرنے میں اولین ہوگا۔ یہ مشن لگ بگ 10روز تک جاری رہے گا۔
آرٹیمس ٹو مشن کوایک نئے طاقت ور راکٹ کی مدد سے فلائیٹ لاؤنچنگ سسٹم کی تیکنیک کے ذریعے لاؤنچ کیا جارہا ہے۔ ماضی میں اپالو مشن میں طاقت ور راکٹ سیٹرن۔فائی کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس بار نئے اَورائن خلائی جہاز کو چاند کے مدار میں بھیجا جارہا ہے۔
اس خلائی جہاز کے لائف سپورٹ سسٹم کی تسلی بخش کارکردگی اور استعمال سے ثابت ہوجائے گا کہ انسانوں کو بعید یا گہرے خلاء میں دیر تک رکھنا ممکن ہوگا جس کی کہ اس ماحولیاتی ضروریات سے مطابقت ایک لازمی امر ہے اور ان صلاحیتوں کے طریقۂ کار کی آزمائش بھی ہوسکے گی۔
چاند پر آخری بار انسانی مشن اپالو۔17 تھا جس کے ذریعے چاند تک رسائی کی گئی۔ یہ مشن دسمبر 1972 ء میں انجام دیا گیا تھا۔
چاند کی سطح پر پہلی بار یادگاری اور تاریخی قدم نیل آرمسٹرانگ 1930-2012) )نے رکھا تھا جو کہ اپالو گیارہ مشن کے ذریعے جولائی 1969ء میں روانہ ہوئے تھے، وہ چاند کی سطح پر آٹھ دن، چودہ گھنٹے، بارہ منٹ اور اکتیس سیکنڈ تک موجود رہے۔
آرٹیمس ٹو کے اس مشن کی تیاری میں پچھلی آرٹیمس ون کی غیرانسانی پرواز سے مدد و راہ نمائی لی گئی ہے جو پچھلے سال دسمبر میں کام یابی سے ہم کنار ہوئی تھی اور اپنے منطقی انجام کو پہنچی جب اس نے چاند کے مدار میں چکر لگالیا اور واپس آگئی۔ قمری آرٹیمس پروگرام کے ذریعہ سے چاند پر پہلی ممکنہ خاتون کے لیے ناسا نے اسٹیج کی تیاری شروع کردی ہے او اس طرح قمری مہمات کی ممکنہ کام یابی کے صلے میں آئندہ کے طویل مدتی انسانی خلائی تجربات کی مہمات سے استعفادہ کیا جائے گا جو مستقبل میں سیّارہ مریخ کے سفر کے لیے چیلنج کے طور پر سامنے کھڑی ہیں۔
پچھلے برس 16 نومبر 2022 ء کو ناسا نے خلائی لاؤنچنگ سسٹم، راکٹ اور آرٹیمس ون کی ٹیسٹ پرواز کی تھی جو ناسا کی چاند کی جانب گہرے خلاء میں پہلی قمری مہم کی آزمائشی پرواز تھی اور خلاء اور اس کے گہرے ماحول میں تحقیقاتی ٹیم کا مربوط فلائیٹ ٹیسٹ تھا۔ اس میں خلائی لاؤنچنگ سسٹم (SLS) طاقت ور راکٹ اور زمینی سسٹم اہم ترین ہوتے ہیں۔
چاند کی نئی مہم آرٹیمس دوم میں ناسا کا یورپی خلائی ساختہ جہاز کا سروس ماڈیول استعمال ہورہا ہے ۔ اَورائن جہاز راکٹ کے بڑے جھٹکے ملنے کے نتیجے میں چاند کی طرف تیرنا شروع کردے گا۔ راکٹ کے جلنے کے عمل میں تقریباً چاند تک رسائی چار دنوں میں ہوگی اور اسی طرح چار روز واپسی کے عمل میں درکار ہوں گے۔
چار روزہ زمینی واپسی کے سفر میں خلاباز اپنے خلائی جہاز اَورائن کے نظام کی کارکردگی کا اندازہ لگائیں گے، چاند کی جانب روانگی میں ایندھن سے رفتار پانے کے بعد چاند کی کشش ثقل کے میدان کو کام میں لایا جائے گا جب کہ زمین پر واپسی کے وقت اَورائن خلائی جہاز زمین کی قدرتی طاقت ور کشش ثقل کے زیراثر واپس لایا جائے گا جو کہ اجسام کو اپنے محور کی جانب کھینچتی ہے۔
ناسا اپنے نئے قمری رسائی کی مہم کو ایک بولڈ مشن کے طور پر دیکھتا ہے جب کہ واقعتاً چاند تک انسانی دسترس ایک زبردست چیلنجوں سے بھرا بولڈ اور سنسنی خیز ایڈونچر ہے۔ جب کسی سواری کی رفتار تیزترین ہوتی ہے تو یقینی طور پر درجۂ حرارت میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوجاتا ہے۔
زمین سے چاند کا فاصلہ 240,000 میل کے لگ بھگ ہے جب کہ اس آرٹیمس مشن ٹو کے سوار خلاباز اَورائن جہاز میں رہتے ہوئے چاند سے 6,400 میل کی دوری کے مدار میں رہیں گے۔ مشن آرٹیمس ٹو کا اختتام سان ڈیاگو (بحرالکاہل) کے ساحل پر اسپلیش ڈاؤن سے ہوگا جہاں ناسا اور ڈیفنس پرسنل ڈیپارٹمنٹ والے چاروں خلابازون کو حفاظتی تحویل میں لے لیں گے۔ چاروں چاق و چوبند، قابل و ماہر ترین خلابازوں کا تعارف اس طرح ہے:
کرسٹینا کوچ : کرسٹینا کا ناسا میں انتخاب 2013 ء میں ہوا تھا۔ وہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشنISS پر بطور فلائیٹ انجینئر خدمات صرف کرچکی ہیں انہوں نے خلاء میں رہنے کا کسی بھی خاتون کا سب سے بڑا ریکارڈ قائم کیا ہے جو 328 ہے اور وہ اسٹیشن کے تجربات ایکسپیڈیشن 59 ،60 اور 61 عملے کا حصّہ رہی تھیں۔
انہوں نے اپنی ساتھی خاتون خلاباز جسیکا میئر کے ساتھ تمام تر خواتین پر مشتمل ارکانی عملے کی ترجمانی کرتے ہوئے خواتین کی پہلی جڑواں خلائی چہل قدمی انجام دی وہ اب ناسا کی اس اہم ترین چاند کی مہم میں شریک ہوئی ہیں۔ کرسٹینا خلاباز مارک ویندے اور اسکاٹ کیلی کے بعد ناسا کی تیسری ٹاپ خلاباز بن گئی ہیں۔
وِکٹر گلووَر: پہلے افریقی، امریکی خلانورد وکٹر کا بھی ناسا میں چناؤ 2013 ء میں ہوگیا تھا۔ خلابازی سے پہلے وہ امریکی سینیٹ میں قانونی مشیر کار رہے ہیں۔ ان کا حالیہ آرٹیمس ٹو میں انتخاب پائیلٹ اور سیکنڈ کمانڈ کرو کے طور پر کیاگیا ہے۔ وکٹر اس سے پہلے اسپیس کے ڈریگن کرو کے ذریعے خلائی اسٹیشن جاچکے ہیں اور ڈیوٹی انجام دے چکے ہیں تب ان کا نام ابھر کر سامنے آیا تھا۔
یہ ان کا 2 مئی 2021 ء میں پہلا پوسٹ سرٹیفیکشن مشن تھا جو کہ نجی کمپنی اسپیس ایکس کے ڈریگن کرو خلائی جہاز کے ذریعے انجام دیا گیا اور یہ دوسری خلائی سواری تھی جو کہ لمبے عرصے کے لیے خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ کی گئی۔ وکٹر نے آئی ایس ایس پر رہتے ہوئے فلائیٹ انجینئر کی حیثیت سے اپنی خدمات دیں جب اسٹیشن پر ایکسپیڈیشن، 64 جاری تھا۔
جی رِیڈوائز مین: امریکی خلاباز وائزمین نئی چاند کی مہم آرٹیمس۔ ٹو کے کمانڈرنام زد ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی خلائی اسٹیشن پر رہتے ہوئے ایکسپیڈیشن۔41 کے لیے بطور فلائیٹ انجنیئر اپنی خدمات صرف کی ہیں اور ان کا مشن 165 دنوں پر محیط رہا تھا جب ٹیم کے ساتھ انہوں نے اسٹیشن پر رہتے ہوئے سیکٹروں گھنٹوں تک نہایت اہمیت کے حامل سائنسی تجربات میں وقت بتایا، جیسے کہ فزیالوجی، میڈیسن، فزیکل سائنس، زمینی سائنس اور آسٹروفزکس کے میدان۔ انہوں نے محض ایک ہفتے کے اندر کل 82 گھنٹوں تک تحقیقی کام کرکے ریکارڈ قائم کردیا۔
امریکی خلاباز وائز مین اس کے علاوہ سوشل میڈیا میں مضبوط سماجی تعلقات رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا میں اپنی موجودگی کا احساس گاہے بگاہے دلاتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر انہوں نے اس قمری آرٹیمس کی مہم کی تفصیلات کے حوالے سے تصاویر، ذاتی ٹوئٹس اور مختصر وڈیوز ریلیز کی ہیں جو کہ خلائی اسٹیشن رہائش رکھتے ہوئے زندگی گزارنے اور ان کی چہل قدمیوں سے متعلق ہیں۔
وائزمین نئی چاند کی خلائی مہم کی کمانڈ کررہے ہیں، چہرے پر مسکراہٹ سجائے وائزمین کا پراعتماد نظر آنا ان کا خلابازی پر عبور ہونا ثابت کرتا ہے، جب کہ وہ پہلے اپنی ماہرانہ و قائدانہ صلاحیتوں کا برملا اظہار چیف آف دی آسٹروناٹ آفس میں رہتے ہوئے کرچکے ہیں۔
جریمی ہینسن: آرٹیمس۔2 کے تین امریکی خلابازوں کے ساتھ چوتھے خلاباز ایک کینیڈین ہیں۔ 27 جنوری 1976 ء کو لندن میں پیدا ہونے والے جریمی ہینسن خلائی سائنس میں بیچلر ڈگری رکھتے ہیں، انہوں نے فزکس میں ماسٹر کیا ہے جب کہ پرواز سے متعلق اسناد ’’ایئرلائن ٹرانسپورٹ پائیلٹ لائسنس‘‘ سے وصول کی ہیں۔ وہ روسی زبان کے علاوہ انگریزی و فرانسیسی میں بھی روانی رکھتے ہیں۔
1988 ء میں ہینسن محض 12 برس کے ہی تھے تو ان کا کیریئر شروع ہوگیا تھا، جب انہوں نے ’’614 رائل کینیڈین ایئر کیڈٹ اسکارڈرن۔لندن‘‘ کو جوائن کرلیا تھا اور یہاں سے ہی جریمی کی ایوی ایشن کے سفر کی ابتدا ہو چلی تھی۔ 16 برس کے ہنسن نے ایئرکیڈٹ گلیڈر سے پائیلٹ ونگ بھی حاصل کرلیا۔ انہوں نے 1999 ء میں رائل ملیٹری کالج کینڈا (کنگسٹن) سے آنرز کے ساتھ خلائی سائنس میں ڈگری مکمل کی۔
2003ء میں وہ CF-18 فائیٹر پائیلٹ کی تربیت مکمل کرچکے ہیں، مقام تھا ’’410 ٹریکٹیکل فائیٹرآپریشنل ٹریننگ اسکوارڈن۔‘‘ 2009 ء میں ہینسن خلابازی کے لیے دو منتخب اور بھرتی کیے گیے کینڈین خلاباز امیدواروں میں ٹاپ لسٹ پر تھے۔ 2011 ء میں وہ خلاباز امیدوار کی تربیت مکمل کرچکے تھے۔
تب انہوں نے مشن کنٹرول سینٹر (Capcom) میں کام کا آغاز کردیا۔ وہ زمینی مرکز اور خلائی اسٹیشن آئی ایس آئی کے مابین رابطہ بن گئے۔ 2013 ء میں جریمی ہینسن نے یورپی خلائی ایجنسی (ESA) کے ساتھ تعاون کیا جو کہ ان کے پروگرام “CAVES” کا حصّہ ہے اور یہ سردینیا (اٹلی) میں واقع ہے۔2017ء میں وہ ناسا کی لیڈنگ خلابازوں کی ہائی کلاس میں شامل پہلے کینیڈین بن گئے تھے۔
2023 ء میں ان کا چناؤ اس اہم چاند کی خلائی مہم کے لیے ہوا ہے اور وہ مشن ماہر کے طور پر ٹیم میں شامل ہیں۔ جریمی ہینسن کی ماسٹر آف فزکس کے حوالے سے تحقیقات کا نکتہ ’’سیٹیلائیٹ ٹریکنگ کا وسیع میدانی علاقہ ‘‘ رہا ہے۔
فن لینڈ کی ایک مشہورزمانہ سیلولر فون کمپنی نے ناسا کے ساتھ تعاون جاری رکھا ہے اور اب فنش کمپنی نے چاند پر پہلا4G موبائل نیٹ ورک قائم کرنے کا ہدف بھی حاصل کرلیا ہے جو آنے والے سالوں (2024-25) میں چاند کی سرزمین پر موجود انسانی مشن کے رابطے کے لیے ضروری ہوگا اور چاند و زمین کے مابین تسلی بخش اور مفید مواصلات کا قیام ممکن ہوسکے گا۔
کیوںکہ آج کے دور میں نئی ٹیکنالوجیزکا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے جن میں ہائی ڈیفینیشن (HD) وڈیوز، روبوٹکس، سینسنگ اپلیکیشن، دُور پیمائی (ٹیلی مینٹری) یا بائیو میٹرکس وغیرہ۔ اس طرح یہ پہلا تاریخی و سائنسی اور آفاقی نوعیت کا موقع ہوگا جب انسانوں کا بنا ہوا موبائل نیٹ ورک سسٹم زمین سے ماروا شمسی نظام کے کسی دوسرے مقام پر نصب ہوگا۔