نام محسن رضا اور تخلص محشر لکھنوی تھا۔ والدِ مولانا حکیم سید محمد یوسف علیم لکھنو کے کئی مدارس میں معلم تھے ۔
.لکھنؤ میں والد کی وفات کے بعد حالات دگرگوں ہو گئےپھر پاکستان بنا تو محشر نے لکھنؤ سے ہجرت کی اور کراچی آگئے۔پاکستان میں بھی غربت دامن گیر رہی، لکھنو میں عزت و تعظیم تو تھی لیکن پاکستان میں یہ بھی نہ رہا ۔
تقسیم کے بعد محشر نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی غربت بدحالی نے محشر سے وہ کام بھی لئے جو محشر کی فطرت میں نہیں تھے ۔
لکھنو کے لوگ زیادہ نازک مزاج اور نفاست پسند ہوتے ہیں ۔ لیکن معاش کی خاطر محشر نے ہر وہ کام کیا جو مزاج کے بر خلاف تھا ۔ پہلی مزدوری میر پور خاص اسٹیشن سے انڈیا کے باڈر باڑھ میر تک لوکل ٹرینوں میں پاکولا کولڈ ڈرنک بیچی ۔
تلاشِ معاش میں 1957 میں لاہور بھی گئے اور آغا شورش کاشمیری کے آفس چلے گئے جہاں سے روزنامہ چٹان نکلتا تھا ۔ شورش کاشمیری یہ سن کے کہ محشر لکھنوی کے جدِ امجد مولانا غفران مآب تھے، آبدیدہ ہوگئے
آغا صاحب نے اسی (۸۰) روپے ماہوار تنخواہ پر اپنے آفس میں رکھ لیا ۔اور دفتر کی چھت پر سونے کی جگہ بھی دے دی۔
محشر کی تحریریں دیکھ کر آغا شورش کاشمیری بہت متاثر ہوئے اور محشر صاحب کتابت اور پروف ریڈنگ کے کام بھی دیے گئے ۔ اُردو کو صحافتی زبان کا نیا طرزِ تکلم اور تخاطب ملا اور اِنکی صحافتی صلاحیتوں کو جلا ملی ۔
محشر بے مثال شاعر کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی کمال کا ملکہ حاصل ہے ۔اُردو کی فلاح و بہبود کے لئے ہمیشہ سر گرم رہے ۔
محشر نے شاعری کا آغاز مشہور گانوں کی پیروڈی سے کیا اُس وقت تک تخلص شبنم لکھنوی تھا ۔
محشر لکھنوی کا تخلص آغا شورش کاشمیری صاحب نے دیا ۔ وہیں سے محشر کی صحافت کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ۔ تیرہ برس آغا شورش کاشمیری کے ساتھ رہے اور تنخواہ تین سو روپے ماہوار تک پہنچ گئی۔ شورش نے محشر کے لیے بہت کچھ کیا لیکن اچانک محشر کے بڑے بھائی کی حالت نازک ہوگئی اور مجبوری میں لاہور چھوڑنا پڑا۔
دوبارہ کراچی آکر گردش حالات پھر دامن گیر ہوگئی اور محشر یہاں رکشہ چلانے لگے تو کبھی سولجر بازار میں مونگ پھلی کا ٹھیلا لگایا۔ گھروں میں رنگ و روغن بھی کرنے لگے ۔ ٹرینوں میں لیمن سوڈا کی بوتلیں بھی فروخت کیں تاکہ گھر کا گزارہ ہوسکے۔ محشر جب عباس ٹاؤن کراچی میں ایک شکستہ سے مکان میں مقیم تھے تو وہاں اُنکا ننھا سا بیٹا موذی مرض کا شکار ہوا، محشر جو کچھ کماتے اُس کے علاج معالجے پر لگ جاتا ایک روز محشر کا لختِ جگر دنیا سے رخصت ہوگیا غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے محشر نے اپنے درینہ دوست سے کچھ پیسے اُدھار لئے اور اپنے بیٹے کی لاش کو اُٹھا کر سہراب گوٹھ کے قبرستان پہنچ گئے۔ خود قبر کھودی اور اپنے لختِ جگر کو سپردِ خاک کیا۔ آج اُس قبرستان پر ایک پیڑول پمپ بن چکا ہے ۔
محشر جب بھی وہاں سے گزرتے، سر نیچے کئے آبدیدہ ہوجاتے۔ گردشِ حالات نے محشر کو کبھی چین سے رہنے نہ دیا، محشر فیڈرل بی ایریا میں واقع کیفے پیالہ کے قریب ایک غریب بستی میں زندگی کے دن گزارتے رہے۔
محشر کے داماد سید مختار حسین بخاری ایڈ وکیٹ کو شہید کر دیا گیا بیوہ بیٹی کا بار بھی اِن بوڑھے نحیف کاندھوں پر آگیا ۔ پھر رفتہ رفتہ محشر نے غزل کی شاعری ترک کی اور مذہبی شاعری شروع کردی۔ یہ جس محفل میں ہوتے داد و تحسین ملتی منقبت اور سلام، محفلوں میں پڑھتے۔ محشر کے نوحوں نے دنیا میں دھوم مچائی ہوئی تھی۔ رہتی دنیا تک یہ نوحے گونجتے رہیں گے ۔
محشر لکھنوی نے جن نوحہ خوانوں کو نوحہ پڑھنا سکھایا وہ سب آج نامور نوحہ خواں ہیں۔
محشر نے ذکرِ اہلبیت کا کبھی معاوضہ نہیں لیا محشر کی کامیاب شاعری سے بہت سے شاعروں نے ایک محاذ بنا لیا ۔ کردار کشی کی گئی اور محشر سے اتنی نفرت رکھی کہ جہاں محشر کو بلایا جاتا پروگرام کے منتظمین کے کان بھر دیے جاتے اور پھر منتظمین معذرت کر لیتے ۔
یہ وہ عمل تھا جس سے محشر بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ۔پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت محشر اس کے کارکن بن گئے ۔ عام انتخابات کے آخری جلسے نشتر پارک میں ذوالفقار علی بھٹو کی کامیابی کی پیشگی نظم بطور سہرا لکھی جو نشتر پارک کے جلسے میں معراج محمد خان نے لوگوں میں تقسیم کرائی اس یادگار نظم کی نقل اب تک محشر لکھنوی کے پاس محفوظ تھی ۔
اِس کے بعد ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف محشر نے پر جوش نظمیں لکھیں جو لوگوں میں زبان زدِ عام ہوئیں ۔
روزنامہ امن اور مساوات میں محشر کی سیاسی نظمیں شائع ہونے لگیں ۔کئی انجمنوں کی وجہ پہچان محشر لکھنوی کا کلام ہے۔محشر لکھنوی کی راہ میں روکاوٹیں ڈالنے والے آج بھی محشر کو ممبر سے دور کرنے میں لگے ہوئے ہیں شدید مخالفت اور جھوٹی خبروں سے محشر کی کردار کشی کی جاتی رہی۔ بعض ٹی وی چینلز میں طویل انڑویوز کی ریکاڈنگ ہوئی مگر ٹیلی کاسٹ نہیں ہوئے ۔
محشر سیاسی قیدی بھی رہے، جیل کاٹی مگر ملک میں بحالی جمہوریت کے لئے اپنے قلم کو کشکول میں نہیں رکھا حاکمِ وقت کو للکارتے رہے ۔ انتہا پسندوں نے محشر کے گھر کو آگ لگائی محشر دربدر ہوئے۔ لیکن نظریات میں لغزش نہ آئی ۔محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی شادی کا سہرہ ککری گراؤنڈ میں پڑھا ملک کے اخبارت میں یہ سہرہ شائع ہوا۔ یہ سہرا آج بھی بلاول ہاؤس میں لگا ہوا ہے جو حاکم علی زرداری نے لگایا تھا۔
گردش حالات سے لڑتے لڑتے آخر کار 27 جون 2023 کو محشر اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ اب ان سے روز محشر ہی ملاقات ہو سکے گی۔
اللہ محشر لکھنوی پر اپنی رحمت کے سائے قائم رکھے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین ۔