حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے ناجائز صیہونی حکومت کے ساتھ تینتیس روزہ جنگ میں مزاحمتی محاذ کی کامیابی کی سترہویں سالگرہ پر لبنانی عوام سے خطاب کیا جس میں انہوں نے اہم علاقائی اور عالمی مسائل پر روشنی ڈالی۔
المیادین کی رپورٹ کے مطابق ناجائز صیہونی حکومت کے خلاف 33 روزہ جنگ میںکامیابی کی سالگرہ کے موقع پر اپنی نشری تقریر میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ جس شخص نے سویڈن میں قرآن مجید کی بےحرمتی کی اس کا تعلق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا تھا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ ہر حریت پسند اور باعزت شخص کو اس جرم کی تمام قانونی طریقوں سے مذمت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عیسائی علماء کی طرف سے قرآن پاک کو جلانے کی مذمت نے فتنہ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نصر اللہ نے اپنے خطاب میں 33 روزہ جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ ہر لحاظ سے ایک جنگ تھی اور لبنان اور خطے کی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ تھا۔ اس جنگ نے پچھلے اور آنے والے سالوں میں لبنان اور خطے کی تقدیر کا تعین کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جنگ مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکہ کے ہتھیاروں میں سے ایک تھی جس کا ہدف علاقے کے ممالک سے غاصب اسرائیل کو تسلیم کروانا، فلسطینی اراضی، جولان اور لبنان کی مقبوضہ سرزمینوں کو نقصان پہنچانا اور اسرائیل کو امریکہ کے زیر اثر ایک علاقائی طاقت کے طور پر دکھانا تھا۔
انہوں نے کہا جنگ کا مقصد لبنانی مزاحمت کو مکمل طور سے تباہ کرنا اور لبنان کو اسرائیل اور امریکہ کی شرطیں منوانے پر رضامند کرنا تھا مگر یہ مقصد ناکام رہا اور مزاحمت کو کامیابی ملی۔
حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ 33 روزہ جنگ کامیابی نے لبنان کے لیے زبردست مزاحمت اور حمایت حاصل کی جو کہ پچھلے 17 برسوں سے جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے اندرونی حلقوں میں لبنان، غزہ، مغربی کنارے اور جنین کے خلاف اس حکومت کی کمزور پوزیشن اور شکست پر اتفاق پایا جاتا ہے۔
نصر اللہ نے مقبوضہ فلسطین کے جنین کیمپ میں صیہونیوں کی حالیہ جارحیت کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس آپریشن میں اسرائیل کو شکست ہوئی اور فلسطینی مزاحمت کامیاب رہی اور اس کی دلیل بھی یہ ہے کہ صیہونی جارحیت کے دوران اور حتیٰ اسکے بعد بھی فلسطینی مزاحمت کی جوابی کارروائیاں جاری رہیں۔