امریکا جہاں ایک جانب چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے کوشاں ہے وہیں اس نے تائیوان کے لیے اپنی امداد بڑھاتے ہوئے 35 کروڑ 50لاکھ ڈالر کی عسکری امداد کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے جمعہ کو جاری بیان میں کہا کہ اس دفاعی پیکج میں دفاعی تنصیبات کے ساتھ ساتھ فوجی تعلیم و تربیت بھی شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس کے اس اعلان میں ہتھیاروں اور دیگر آلات کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم میڈیا اداروں نے کچھ نامعلوم ذرائع عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس امداد میں پورٹیبل ایئر ڈیفنس سسٹم، چھوٹے ہتھیار اور دیگر آلات شامل ہوں گے۔
اس اعلان پر چین نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے جو ضرورت پڑنے پر تائیوان کو طاقت کے ذریعے چین کے ساتھ ملانے کا کئی مرتبہ برملا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو نے کہا کہ امریکا کو تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت بند کر دینی چاہیے اور ایسے نئے عوامل پیدا کرنا بند کر دینے چاہئیں جو تائیوان میں کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں۔
امریکا تائیوان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا جس کے صرف 13 سفارتی اتحادی ہیں لیکن جزیرے کے حوالے سے چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ موقف کو دیکھتے ہوئے اپنے تائیوان کے دفاع کو بڑھانے کی کوشش کی ہے جس میں جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کی باقاعدہ دراندازی بھی شامل ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں چین نے رواں سال دوسری بار تائیوان کے اطراف بڑی فوجی مشقیں کی تھیں جس میں درجنوں جنگی جہاز اور طیارے تائیوان کی ساحلی پٹی کے قریب بھیجے گئے تھے۔
واشنگٹن اپنی ’ایک چین‘ کی پالیسی کے تحت تائیوان کی آزادی کی حمایت کرتا ہے اور امریکی قانون اس بات کا تقاجا کرتے ہیں کہ وہ جزیرے کے دفاع کی حمایت کرے۔
واشنگٹن نے حالیہ برسوں میں تائیوان کے لیے اربوں ڈالر کی فوجی امداد کی منظوری دی ہے جس میں 2026 تک 66 ایف-16 لڑاکا طیاروں کی فراہمی کے لیے 8 ارب ڈالر کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
بائیڈن کی جانب سے تائیوان کی حمایت اور آزادی کی مانگ کرنے والی تسائی انگ وین کی انتظامیہ نے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
واشنگٹن کی جانب سے تازہ ترین امدادی پیکج کا اعلان اس وقت کیا گیا جب امریکی کانگریس کی جانب سے بائیڈن کو امریکی فوجی ذخائر سے تائیوان کے لیے امداد حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔