فلپائن کے صدر فرڈینینڈ مارکوس نے کہا ہے کہ متنازع جنوبی بحیرہ چین میں فلپائن کے بحری جہازوں کو چینی کوسٹ گارڈ کی جانب سے روکے جانے اور ان پر واٹر کینن سے حملہ کرنے پر فلپائن نے چین کے سفیر کو طلب کیا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ واقعہ ہفتے کے روز اس وقت پیش آیا جب فلپائن کے کوسٹ گارڈ، اسپراٹلی جزائر کے سیکنڈ تھامس شول میں تعینات فلپائن کے فوجی اہلکاروں کے لیے خوراک، پانی، ایندھن اور دیگر سامان لے جانے والی چارٹر کشتیوں کو لے جارہے تھے۔
بیجنگ تقریباً تمام جنوبی بحیرہ چین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جس سے سالانہ کھربوں ڈالرز کی تجارت ہوتی ہے اور اس نے 2016 کے بین الاقوامی عدالت کے اس فیصلے کو نظر انداز کردیا جس میں چین کے دعوے کو قانونی طور پر بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
فلپائن کی فوج اور ساحلی محافظوں نے چینی کوسٹ گارڈ پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے سپلائی مشن پر مامور چارٹر کشتیوں میں سے ایک کو شوآل تک پہنچنے سے روک کر اور اس پر واٹر کینن سے حملہ کرکے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایک اور چارٹر کشتی سپلائی کا سامان ان لوڈ کرنے میں کامیاب رہی۔
اس سے متعلق چین نے مؤقف اپنایا کہ اس نے اپنی سمندری حدود میں ’غیرقانونی‘ طور پر داخل ہونے والی فلپائن کی کشتیوں کے خلاف ’ضروری اقدامات‘ کیے۔
فلپائن کے صدر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہمارے سیکریٹری برائے خارجہ امور نے آج سفیر ہوانگ کو طلب کیا اور انہیں زبانی ایک نوٹ دیا جس میں تصاویر، ویڈیو بھی شامل ہیں کہ کیا ہوا اور اس حوالے سے ہم ان کے جواب کے منتظر ہیں۔
فرڈینینڈ مارکوس نے کہا کہ ’یقیناً چین کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ حصہ ہمارا ہے لہٰذا ہم اس کا دفاع کر رہے ہیں، جبکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ نہیں ہم اس کے مالک ہیں اس لیے ہم اس کا دفاع کر رہے ہیں، تو یہ ایک گرے ایریا بن جاتا ہے جس پر ہم بحث کر رہے ہیں‘۔
امریکا کے محکمہ خارجہ نے اتوار کو چین کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائیاں کوسٹ گارڈ اور’میری ٹائم ملیشیا’ نے انجام دیں اور ان سے علاقائی امن اور استحکام کو براہ راست خطرہ ہے۔