مغربی ممالک من جملہ فرانس نے گزشتہ چند سال کے دوران اپنی اسلام دشمنی اور اسلاموفوبیا پر مبنی پالیسیوں کی شدت میں مزید اضافہ کردیا ہے جسے ان ممالک کے سیاسی اور سماجی رجحان میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
میکرون کی قیادت میں فرانس کی موجودہ حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ رواں تعلیمی سال سے مسلم طلبا کو عبایہ پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس اقدام کے لئے یہ بہانہ پیش کیا گیا کہ عبایہ، فرانس کے سیکولر تعلیمی نظام کے قوانین کے منافی ہے۔
اس سے قبل مذہبی رجحان کا اظہار قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اسکارف پہننے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
اور اب فرانس کی ریاستی کمیٹی نے جسے اس ملک کی سب سے اہم ایگزیکٹیو عدالت قرار دیا جاتا ہے، جمعرات کو ان تمام اپیلوں کو مسترد کردیا جو اسلامی لباس پر پابندی کے خلاف درج کی گئی تھیں۔
عدالت نے دعوی کیا کہ اسکولوں میں عبایہ کے پہننے پر پابندی، فرانس کے آئیں کے عین مطابق ہے لہذا بقول ان کے مذہبی علامتوں کو ظاہر کرنے کی کسی صورت سے اجازت نہیں دی جائے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ پیر کو فرانس کے تعلیم اور نوجوانوں کے امور کے وزیر گیبریئل اتل نے اس قانون پر عملدرامد کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے اسے سیکولرزم پر مبنی پالیسی کے عین مطابق قرار دیا تھا۔
میکرون حکومت کی اس اشتعال انگیز پالیسی پر فرانس کے حزب اختلاف نے بھی آواز اٹھائی اور جیک لوک ملانشون سمیت بائیں بازو کے رہنماؤں نے اس قانون پر سخت برہمی ظاہر کی اور کھل کر اس کی مخالفت بھی کی ہے۔
یاد رہے کہ فرانس کی حکومت نے سن دو ہزار چار میں اسلامی حجاب پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔
فرانس کی 6 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی میں دس فیصد مسلمان ہیں تاہم پیرس نے جو خود کو آزادی کا علمبردار کہتا ہے، اسلامی لباس کو اس ملک کے سیکولر نظام کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔