مسٹر یادو دہلی کے نواحی حلقے گڑگاؤں سے پارلیمنٹ کا الیشکن لڑ رہے ہیں اور مذہبی تفریق کے موجودہ سیاسی ماحول میں اس انکشاف سے انھیں فائدہ بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی۔
سوشل نیٹورکنگ کی ویب سائٹوں اور مسٹر یادو کے حلقے میں کئی دن سے یہ ذکر تھا کہ ان کا ’ایک مسلمان نام بھی ہے’ لیکن تصدیق انھوں نے اب کی ہے۔
مسٹر یادو کا الزام ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین ہندو ووٹروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا (یوگیندر یادو) جھکاؤ صرف مسلمانوں کی طرف ہے اور یہ کہ وہ اپنا ’مسلمان نام’ استعمال کر کے مسلم ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے اس خبر کی تصدیق مسلمانوں کی بھاری اکثریت والے میوات علاقے میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کی۔
یوگیندر یادو اس سے قبل بھارتی انتخابات کے ماہر تجزیہ نگاروں میں شامل تھے
مسٹر یادو کو گڑگاؤں میں سخت چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ بی جے پی اور کانگریس کے امیدوار بھی انھیں کی برادری سے ہیں جبکہ صرف ایک مسلمان امیدوار میدان میں ہے جسے روایتی طور پر میوات کے علاقے سے یک طرفہ طور پر حمایت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اس الیکشن میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
یوگیندر یادو انتخابی جائزوں کے ماہر ہیں اور سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے تجزیہ نگار کے طور پر تقریباً روز ہی ٹی وی پر نظر آتے تھے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی سیاسی حکمت عملی وضع کرنے میں وہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے بارے میں تاثر ایک ایسے صاف ستھرے رہنما کا ہے جو روایتی سیاست سے ہٹ کر سوچنے کی کوشش کرتا ہو۔
ان کا نام سلیم کیوں رکھا گیا اس کے پیچھے ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے۔ یوگیندر یادو کے مطابق سن انیس سو چھتیس میں مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ایک سکول پر حملہ کیا۔ ان کے دادا اس سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش میں وہ ہلاک ہوگئے۔ ان کے والد اس وقت صرف سات سال کے تھے اور انھوں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
’اس کے بعد میرے والد نے تقسیم ہند کے وقت مذہبی فسادات دیکھے۔۔۔اور انھوں نے اس (مذہبی منافرت) کا جواب سیکولر رویے سے دینا چاہا۔۔۔ انھوں نے سوچ لیا کہ وہ اپنے بچوں کو مسلمانوں کے نام دیں گے۔۔۔’
حال میں یوگیندر یادو کے چہرے پر روشنائی سے حملہ کیا گيا تھا
مسٹر یادو کے مطابق پہلے ان کی بڑی بہن کا نام نجمہ رکھا گیا تھا لیکن معاشرتی دباؤ میں ان کا نام تو بدل دیا گیا۔’ پھر میرے والد نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پہلے بیٹے کا ’مسلمان نام’ رکھیں گے۔‘
اور اس وجہ سے ان کا نام سلیم رکھ دیا گیا۔ لیکن مسٹر یادو کے مطابق سکول میں بچے ان کے نام کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے اپنا نام بدل کر یوگیندر رکھ لیا۔ لیکن ان کے دوست اور قریبی رشتےدار انھیں اب بھی سلیم کہتے ہیں۔
اب ان کا ’فیملی سیکریٹ‘ عام ہوگیا ہے۔ جیسا امریکہ کے صدارتی انتخاب میں براک حیسن اوباما کے ساتھ ہوا تھا، باقی انتخابی مہم میں یوگیندر کے ساتھ ساتھ سلیم کا ذکر ضرور ہوگا، شاید ان کی طرف سے اپنے سیکولر کردار کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اور ان کے مخالفین کی جانب سے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ان کا جھکاؤ مسلمانوں کی طرف زیادہ ہے۔
اس دلچسپ مقابلے میں اگر یوگیندر یادو کے ساتھ ساتھ سلیم کو بھی ووٹ ملتے ہیں تو انھیں ہرانا مشکل ہوگا۔