کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ حاملہ عورت کو ہر ماہ اپنا معائنہ کیوں کروانا ہوتا ہے؟ شاید آپ کاجواب ہو کہ ماہانہ الٹرا ساؤنڈ کے لیے۔ الٹراساؤنڈ کے بارے میں ہم بات پھر کبھی کریں گے مگر ماہانہ وزٹ کا مقصد یہ نہیں۔
حمل بہت سی ایسی بیماریوں کا نقطہِ آغاز ہوتا ہے جو پہلے سے موجود نہیں ہوتیں اور حاملہ عورت کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کا شکار حمل کی وجہ سے ہوگی لیکن حقیقت یہی ہے۔
حمل میں ہائی بلڈ پریشر ایک عام صورتحال ہے اور دنیا بھر میں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیاں حاملہ عورت کی موت کا سبب بنتی ہیں۔ حمل کی مدت 40 ہفتے جس کا نصف یعنیٰ 20 ہفتے، 20 ہفتے بلڈ پریشر کی اقسام پہچاننے کے لیے بہت اہم ہیں۔
اگر ہائی بلڈ پریشر 20 ہفتے سے پہلے ہو تو کرونک ہائپرٹینشن (Chronic Hypertension) کہلاتا ہے اور اگر 20 ہفتے کے بعد ہو تو پریگنینسی انڈیوسڈ ہائپرٹینشن (Pregnancy induced Hypertension) کہلاتا ہے۔
حمل کے ہر مہینے حاملہ کا بلڈ پریشر اور پیشاب کا معائنہ لازم ہے۔ اگر بلڈ پریشر 140/90 ہو اور 4 یا 6 گھنٹے بعد بھی اتنا ہی رہے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ بلڈ پریشر کی بیماری کا آغاز ہوگیا ہے۔
پیشاب میں بنیادی طور پر دو باتیں دیکھی جاتی ہیں، شوگر اور البیومن نامی پروٹین۔ پیشاب میں ان دونوں کے نہ ہونے کو ایک اچھی نشانی سمجھا جاتا ہے۔
140/90 بلڈ پریشر پر ضروری ہے کہ حاملہ عورت کو دن میں دو بار چیک کیا جائے۔ اس بلڈ پریشر کے ساتھ اگر کوئی اور وارننگ نہ ہو تو بلڈ پریشر چیک کرتے رہنا کافی ہوسکتا ہے لیکن 140/90 سے جونہی بلڈ پریشر اوپر جائے، دوائی کھانا لازمی ہے۔ بلڈ پریشر کی بہت سی ادویات ایسی ہیں جو حمل میں استعمال کے لیے انتہائی محفوظ ہیں۔
ان میں سرِفہرست میتھائیل ڈوپا (Methylene Dopa) اور ٹرانڈیٹ (Trandate) ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ ادویات کے نام لکھنا کچھ مناسب نہیں لیکن ایک ایسا ملک جہاں زیادہ تر حاملہ خواتین کو بنیادی علاج دستیاب نہیں، وہاں ضروری ہے کہ لوگ سیکھ لیں کہ ان ادویات کا کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟
ہائی بلڈ پریشر کو ختم نہیں کیا جاسکتا تو اسے کنٹرول میں رکھنا ہی حاملہ عورت کی ضرورت ہے۔ شروع میں ایک دوا دن میں 3 یا 4 بار کھلائی جاتی ہے لیکن اگر اس کے باوجود بلڈ پریشر زیادہ رہے، سر میں درد اور چکر آئیں تو دوسری دوا بھی شروع کروا دی جاتی ہے۔
ہائی بلڈ پریشر والی حاملہ عورت پر لازم ہے کہ دن میں ایک یا دو بار بلڈ پریشر چیک کروائے، کسی کاغذ پر چارٹ بنا کر لکھے اور دو یا تین ہفتے کے بعد ڈاکٹر کو چیک کروائے۔
اگر ادویات سے بلڈ پریشر قابو میں رہے اور کسی بھی قسم کی پیچیدگی نہ ہو، تب بچے کی ڈلیوری 38 ہفتے میں کروالی جاتی ہے۔ ادویات کا استعمال ڈلیوری کے بعد بھی کیا جاتا ہے۔ ڈلیوری کے 6 ہفتے کے بعد خاتون کا تفصیلی معائنہ دوبارہ کیا جانا چاہیے تاکہ دیکھا جائے کہ حمل میں شروع ہونے والا بلڈ پریشر جاچکا یا ابھی موجود ہے؟
اگر ڈلیوری کے چھ ہفتے کے بعد بھی ہائی بلڈ پریشر رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حاملہ عورت ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ ہوچکی ہے اور اب اسے دوا مستقل طور پر کھانی ہے۔ یاد رکھیے شوگر اور بلڈ پریشر ایسی بیماریاں ہیں جنہیں کنٹرول کیا جاسکتا ہے مگر یہ ایک بار ہوجائیں تو سرے سے ختم نہیں کی جاسکتیں۔
ہمارے ابّا ہائی بلڈ پریشر کے شکار ہوئے اور ہومیو پیتھک دوست کی بات پر یقین کرتے ہوئے ایلو پیتھک ادویات کے بجائے ہومیو پیتھک علاج پر تکیہ کیا۔ نتیجہ فالج تھا اور ایسے ہی بے شمار مریض ہم دیکھ چکے ہیں۔
ہائی بلڈ پریشر بنیادی طور پر تب ہوتا ہے جب شریانیں تنگ ہوجائیں اور ان میں دوڑنے والا خون زیادہ دباؤ پیدا کرے۔ شوگر بھی اس وقت ہوتی ہے جب بے احتیاط زندگی گزارنے کی وجہ سے شوگر کنٹرول کرنے والا ہارمون انسولین ختم ہوجائے یا کم پڑ جائے۔ دونوں صورتوں میں انہیں کنٹرول کرنا ممکن ہے لیکن جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ درست نہیں ہوتا۔
ہم نے مضمون کی ابتدا میں حاملہ عورت کا پیشاب چیک کرنے کی بات کی۔ شوگر اور بلڈ پریشر کا سب سے بڑا شکار انسانی جسم کا اہم ترین عضو گردے ہوتے ہیں جو جسم سے زہریلے مادے باہر نکال کر انسانی جسم کو زندہ رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر حاملہ عورت ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ پیچیدگیوں کا شکار ہورہی ہو تو سب سے پہلی اور بڑی نشانی گردوں کی خرابی ہے اور اس کا ثبوت پیشاب میں نکلنے والی پروٹین البیومن (Albumin) ہے جو عام صورتحال میں گردوں کے راستے جسم سے خارج نہیں ہوتا۔
ہائی بلڈ پریشر اور البیومن کی پیشاب میں موجودگی ایک ایسی گھنٹی ہے جو جونہی بجے، گائناکالوجسٹ کو چوکنا ہوجانا چاہیے۔ اس سے آگے کے مراحل مزید نازک ہوجاتے ہیں اور انہی کی وجہ سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
پریگنینسی انڈیوسڈ ہائپر ٹینشن ہو یا کرونک، جونہی پیشاب میں البیومن آئے، لیجیے اس کا نام بھی بدل گیا۔ اب یہ پری اکلیمپسیا Pre-Eclampsia یعنی حاملہ عورت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب۔ اور ایسا کیوں ہے؟ اس کے متعلق ہم اگلے بلاگ میں بات کریں گے۔