غزہ میں جمعے کی صبح شروع ہونے والی عارضی جنگ بندی کے بعد کئی فلسطینی باشندے اسرائیلی قید سے رہا ہونے کے بعد اپنے گھروں کو پہنچے، رہا ہونے والے فلسطینیوں نے انکشاف کیا کہ اسرائیل کی جیلوں میں انہیں شدید اذیت اور خوف کا سامنا رہا۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے تحت منگل کو حماس نے 10 شہریوں اور دو تہائی باشندوں کو رہا کر دیا تھا جنہیں اسرائیل کے حوالے کردیا گیا تھا، 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد گرفتار ہونے والے تقریباً 240 افراد میں سے رہائی پانے والوں کی کُل تعداد 86 ہو گئی ہے۔
اس کے فوراً بعد اسرائیل نے اپنی جیلوں سے 30 فلسطینیوں کو رہا کر دیا تھا جس کے بعد رہا ہونے والے فلسطینیوں کی کُل تعداد 180 ہو گئی ہے۔
رہا ہونے والے فلسطینیوں کی فہرست میں 15 بچے بھی شامل ہیں جن میں سے 12 کا تعلق یروشلم سے اور تین کا مقبوضہ مغربی کنارے سے ہے اور 15 خواتین بھی شامل ہیں جن میں سے پانچ کا تعلق یروشلم سے اور 10 کا مغربی کنارے سے ہے۔
اسرائیل کی جیلوں سے رہا ہونے والے فلسطینیوں نے بتایا کہ انہیں اسرائیل کی جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، طبی امداد سے محروم رکھا جاتا اور انہیں اپنے وکیل یا خاندان سے بھی ملنے سے بھی روکا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ انہیں بجلی، پانی اور ضروری بنیادی اشیا سے بھی محروم رکھا جاتا۔
7 اکتوبر سے اسرائیلی حراست میں کم از کم 6 فلسطینی قیدی جاں بحق یا مارے جاچکے ہیں۔
رہائی پانے والے 18 سالہ محمد نزل فلسطینی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی گارڈ نے جیل میں اس کی انگلیاں اور بازو توڑ دیے، ایک سے زیادہ بار تشدد کا نشانہ بنایا اور علاج کرانے سے انکار کردیا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے تحت رہا ہونے والوں میں 18 سالہ محمد صلحاب تمیمی بھی شامل تھے جو 8 ماہ تک اسرائیل کی جیل میں بغیر کسی الزام یا کارروائی اسرائیل کی قید میں رہے۔
8 ماہ بعد جب ان کی ملاقات اپنے والدین سے ہوئی تو ان کے چہرے پر سنجیدہ اور پریشان کن تاثرات تھے۔
اسرائیل کی قید سے رہا ہونے سے قبل اسرائیلی گارڈز نے محمد صلحاب کو آخری وارننگ دی تھی کہ اگر ان کے خاندان یا دوستوں نے کوئی جشن یا خوشی منائی تو انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا جائے گا۔
18 سالہ رہا ہونے والے فلسطینی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیلی گارڈز نے خبردار کیا تھا کہ اپنے دوستوں کو بتادینا کہ اگر ہم نے کوئی بڑا جشن منایا تو میں واپس جیل چلا جاؤں گا‘۔
قریبی اسرائیلی چیک پوائنٹس اور بستی کی وجہ سے محمد کے خاندان کے افراد ان کی واپسی پر خوشی نہ منانے پر مجبور تھے، محمد کی واپسی کی خوشی میں انہوں نے گھر میں صرف قریبی رشتہ داروں کو مدعو کیا تھا۔
محمد صلحاب فلسطینی قیدیوں کے چوتھے گروپ کا حصہ تھے جنہیں منگل کی صبح رام اللہ کے قریب عفر جیل سے رہا کیا گیا تھا، رہا ہونے سے قبل آخری لمحے تک وہ اس بارے میں بے یقینی کا شکار تھے کہ ان کے ساتھ آخر کیا ہو رہا ہے۔
رہا ہونے سے قبل اسرائیلی فوجیوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اس حوالے سے محمد صلحاب بتایا کہ ’27 نومبر کی صبح 7 بجے ریمون جیل کے ایک گارڈ نے مجھے ہدایت کی کہ میں عفر جیل منتقلی کے لیے تیار رہوں، انہوں نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی، مجھے صرف یہ کہا گیا کہ میں سرمئی رنگ کے جیل کے کپڑے پہن لوں اور اپنا سارا سامان اکٹھا کر لوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے کپڑے ان پلاسٹک کے لفافوں میں رکھے اور جیل کے دروازے پر چلا گیا، جہاں انہوں نے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگائیں اور میرے سر کو زبردستی نیچے کر دیا۔‘
محمد صلحاب کا کہنا تھا ’ایک افسر نے مجھے زور سے لات ماری، اس کے جوتے میں اسٹیل تھا، ایسا لگا جیسے اس نے میرے پاؤں کچل دیے ہوں، مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔‘
18 سالہ فلسطینی لڑکے نے خوف زدہ ہوکر بتایا کہ ’وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے جیل کے صحن میں لے گئے، لیکن جیسے ہی وہ مجھے جیل سے باہر نکال رہے تھے، انہوں نے میرے کپڑے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیے، پھر مجھے فحش زبان سے برا بھلا کہتے ہوئے مجھے گھسیٹتے رہے۔‘
محمد صلحاب کو قیدیوں کو منتقل کرنے والی ایک گاڑی میں بٹھایا گیا جسے ’بوسٹا‘ کہا جاتا ہے (یہ ایک وین ہے جس میں سیاہ رنگ کے شیشے ہوتے ہیں اور یہ سیل دھاتی سے لیس تھیں، جس میں قیدیوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے)۔
محمد صلحاب نے بتایا کہ ’مجھے رات گئے تھے بغیر کسی کھانے اور پانی کے بغیر گاڑی کے سیل میں رکھا گیا۔‘
تاہم جب منگل کو وہ عفر جیل پہنچے تو محمد صلحاب کے والد اور چچا عفر جیل کے باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ محمد کو اپنے ساتھ واپس گھر لے جاسکیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل، مواصلاتی نظام منقطع ہے جبکہ غزہ میں 50 فیصد گھر تباہ ہو گئے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان 21 نومبر کو 4 روزہ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت اسرائیل میں قید 150 فلسطینیوں کے بدلے غزہ میں قید 50 یرغمالیوں کی رہائی اور محصور علاقے میں انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دی گئی تھی۔
تاہم حماس اور اسرائیل نے قطر کی ثالثی میں 4 روزہ جنگ بندی کے آخری روز جنگ بندی میں دو روزہ توسیع کردی ہے۔